چرچ کے لئے مشورے

125/152

ستائیسواں باب

گھر کے اخراجات

خداوند چاہتا ہے کہ اس کے لوگ اندیش مند اور سوچ بچار کرنے والے ہوں۔ اور کہ وہ کفایت شعاری کا مطالعہ کریں اور کسی چیز کو بیکار ضائع نہ کریں۔ CChU 219.1

آپ کو جاننا چاہیے کہ کس وقت دریغ کرنا اور کس وقت خرچ کرنا چاہیے۔ جب تک ہم خود انکاری کر کے صلیب کو سر بلند نہ کریں۔ ہم خداوند مسیح کے پیروکار نہیں ہو سکتے جوں جوں ہم آگے بڑھتے ہیں۔ ہمیں ہر چیز کا موزوں خیال کر کے ادائیگی کرنا چاہیے۔ گری ہوئی چیزوں کو جمع کریں۔ سلجھائی ہوئی حدوں کو پیوستہ کریں اور جانیں کہ آپ کس چیز کو اپنی کہہ سکتے ہیں۔ آپ اپنی تسکین پر چھوٹے چھوٹے مصارف کو اکٹھا کریں اور غور کریں کہ محض ذائقہ کی تسکین کے لیے کیا کچھ استعمال کیا جاتا ہے اور بگڑی ہوئی شکم پروری پر کیا خرچ کیا جاتا ہے۔ فضول نزاکتوں پر خرچ کرنے کی بجائے آپ اس روپیہ کو مزید گھریلو آرام اور آسائش پر صرف کر سکتے ہیں۔ آپ کو تنگ دست نہیں ہونا چاہیے۔ آپ کو اپنے اور اپنے بھائیوں کے ساتھ دیانت دار ہونا چاہیے۔ تنگدستی کا مطلب خدا کی بخشش کا غلط استعمال ہے۔ فضول خرچی اور اسراف بھی بربادی ہے۔ چھوٹے چھوٹے اخراجات جن کا ذکر معیوب نظر آتا ہے آخر کار ایک بڑی رقم بن جاتے ہیں۔ CChU 219.2

جب یہ آزمائش آئے کہ کھلونوں پر روپیہ خرچ کیا جائے تو آپ خداوند یسوعؔ مسیح کی خود انکاری اور خود ایثاری پر غور کریں جو اس نے گِری ہوئی نسل انسانی کو بچانے کے لیے پیش کی۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے بچّوں کو خود انکاری اور خود ضبطی کی تعلیم دیں۔ اس بات کی وجہ کہ کیوں اتنے زیادہ خدامِ الدین اپنے مالی مسائل کی مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں۔ یہ ہے کہ اپنے ذائقوں اپنی اشتہا اور رجحان کو قابو میں نہیں لایا جاتا اس لیے اکثر لوگ دیوالیہ ہو جاتے ہیں اور روپیہ پیسہ کے بارے میں بد دیانتی کرتے ہیں۔ کیونکہ وہ اپنی بیویوں اور بچّوں کے اسراف اور گل قیروں کی تسکین کے لیے مساعی کرتے ہیں۔ پس والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے نمونہ اور عمل سے اپنے بچّوں کو کفایت شعاری اور کم خرچ کرنے کی تعلیم دیں۔ CChU 219.3

یہ نادانی کی بات ہے کہ ہم دولت مند ہونے یا اپنی بساط سے بڑھ کر ہونے کا دعویٰ کریں۔ ہم حلیم اور فروتن نجات دہندہ کے پیروکار ہیں۔ اگر ہمارے پڑوسی اپنے گھروں کی تعمیر و سجاوٹ اور آرائش کریں۔ جن کی نقل کرنے کی ہمیں اجازت نہیں تو ہمیں پریشان اور حیران نہ ہونا چاہیے۔ غور کریں کہ خداوند یسوعؔ مسیح ہماری خود آسودگی اور عیش و نشاط کو کس نظر سے دیکھے گا۔ اپنے مہمانوں کو خوش کرنے یا اپنی خواہشات پر اسراف سے خود غرضی کے انتظامات کے بارے میں وہ کیا کہے گا۔ ہمارے لیے ظاہرداری کا مظاہرہ یا اپنے بچّوں کو جو ہمارے ماتحت ہیں۔ ایسا کرنے دینا ایک دامِ تزویر سے کم نہیں۔ (اے ایچ ۳۷۴۔۳۸۴) CChU 220.1

جو چیز بھی استعمال میں آ سکے اُسے باہر نہیں پھینکنا چاہیے۔ اس امر میں دانش دور اندیشی اور مسلسل احتیاط کی ضرورت ہو گی۔ میرے سامنے یہ پیش کیا گیا ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں پس ماندگی کی نا اہلیت ہی وہ سبب ہے کہ جس کے سبب سے اتنے خاندان ضروریاتِ زندگی سے محروم اور عاری ہیں۔ (سی جی ۱۳۵) CChU 220.2