ابتدائ کليسياء کے درخشاں ستارے

22/58

باب ۲۲ - تھِسلُنیکے

اعمال ۱:۱۷-۱۰

فلپی چھوڑنے کے بعد پولُس اور سیلاس نے تھِسلُنیکے کی راہ لی۔ یہاں اُنہیں یہودی ہیکل میں بہت بڑی جماعت کے سامنے کلام کرنے کا موقع دیا گیا۔ رسُولوں کے حُلئیوں سے صاف واضح تھا کہ اُن کے ساتھ بہت بُرا برتاو کیا گیا ہے۔ چنانچہ اُس کی اُن سے وضاحت طلب کی گئی۔ لہٰذا اُنہوں نے اپنی تعریف کئے بغیر سب کچھ بے کم و کاست بتا دیا اور اپنے مخلصی دینے والے کو جلال دیا۔ IKDS 208.1

تھسلُنیکیوںمیں مُنادی کرتے ہوئے پولُس نے مسیح یسُوع کے بارے عہد عتیق میں پائی جانے والی پیشنگوئیاں بیان کیں۔ مسیح یسُوع نے بھی اپنی خدمت کے دوران شاگردوں کے اذہان پیشنگوئیوں کے بارے کئے۔ IKDS 208.2

“پھر موسیٰ سے اور سب نبیوں سے شُروع کر کے سب نوشتوں میں جتنی باتیں اُس کے حق میں لکھی ہوئی ہیں وہ اُن کو سمجھا دیں”۔ (لوقا ۲۷:۲۴) پطرس نے بھی مسیح یسُوع کی منادی کرتے ہوئے عہد عتیق سے ثبوت فراہم کئے۔ ستفنس نے بھی یہی راہ اختیار کی۔ اور پولُس نےبھی اپنی خدمت میں صحیفوں سے ہی مسیح یسوع کی پیدائش کی پیشنگوئی، اُس کے دُکھ، موت، مرُدوں میں سے جی اُٹھنا اور آسمان پر چڑھنا ثابت کیا۔ موسیٰ اور نبیوں کی الہامی شہادت سے اُس نے بڑے واضح انداز میں یسوع ناصری کو مسیح موعود ثابت کیا۔ اور نبیوں کے کلام سے ثابت کیا کہ آدم کے زمانہ سے ہی یہ مسیح کی آواز تھی جو نبیوں اور قدیم آبائی بزرگوں کے ذریعہ کلام کرتی تھی۔ IKDS 208.3

مسیح موعود کے ظہور کی بابت واضح، خصوصی اور قطعی پیشنگوئیاں دی گئی تھیں بلکہ آنے والے نجات دہندہ کے بارے آدم کو نجات کا یقینی وعدہ دیا گیا تھا۔ “اور میں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالوں گا۔ وہ تیرے سر کو کُچلے گا اور تُو اُس کی ایڑی پر کاٹے گا”۔ پیدائش ۱۵:۳۔ مسیح کے ذریعہ نجات کا یہ وعدہ ہمارے پہلے جد امجد کے ساتھ تھا۔ اور پھر ابراہام سے وعدہ کیا گیا تھا کہ نجات دہندہ اُس کی نسل سے آئے گا۔ “اور تیری نسل کے وسیلہ سے زمین کی سب قومیں برکت پائیں گی “پس ابراہام اور اُس کی نسل سے وعدے کئے گئے۔ وہ یہ نہیں کہتا کہ نسلوں سے جیسا بہتوں کے لئے کہا جاتا ہے بلکہ جیسا ایک کے واسطے کہ تیری نسل اور وہ مسیح ہے”۔ پیدائش ۱۸:۲۲، کلیسوں ۱۶:۳ IKDS 209.1

موسیٰ جو بنی اسرائیل کا معلم اور رہبر بھی تھا اُس نے اپنی خدمت کے خاتمہ کے قریب مسیح کی آمد سے متعلق بڑی واضح پیشنگوئی کی۔ “خُدا وند تیرا خُدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا۔ تُم اُس کی سُننا”۔ اور موسیٰ نے بنی اسرائیل کو یقین دلایا کہ یہ مکاشفہ خُد ا نے مُجھے اپس وقت دیا جب میں کوہ حورب پر تھا۔ “میں اُن کے لئے اُن ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اُس کے مُنہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اُسے دُوں گا وہی وہ اُن سے کہے گا”۔ استثنا ۱۵:۱۸-۱۸ IKDS 209.2

مسیح یسوع کو شاہی نسل سے آنا تھا۔ وہ پیشنگوئی جو یعقوب کے ذریعہ کی گئی خُداوند نے فرمایا “یہودہ سے سلطنت نہیں چھوٹے گی اور نہ اُس کی نسل سے حکومت کا عصا موقوف ہو گا۔ جب تک شیلوہ نہ آئے اور قومیں اُس کے مطیع ہوں گی”۔ (پیدائش ۱۰:۴۹) IKDS 209.3

یسعیاہ نے یوں پیشنگوئی کی “اور یسّی کے تنے سے ایک کونپل نکلے گی اور اُس کی جڑوں سے ایک بار آور شاخ پیدا ہو گی کان لگاو اور میرے پاس آو۔ سُنو تُمہاری جان زندہ رہے گا اور میں تُم کو ابدی عہد یعنی داود کی سچی نعمتیں بخشوں گا۔ دیکھو میں نے اُسے اُمتوں کے لئے گواہ مقرر کیا بلکہ اُمتوں کا پیشوا اور فرمانروا۔ دیکھ تُو ایک ایسی قوم کو جسے تُو نہیں جانتا بُلائے گا ایک ایسی قوم جو تُجھے نہیں جانتی تھی خُدواند تیرے خُدا اور اسرائیل کے قدُوس کی خاطر تیرے پاس دوڑی آئے گی کیونکہ اُس نے تجھے جلال بخشا ہے”۔ (یسعیاہ ۱:۱۱، ۳:۵۵-۵) IKDS 209.4

یرمیاہ نبی نے بھی آنے والے نجات دہندہ کی گواہی بطور “داود کے گھرانے کے شہزادہ” کے دی ہے۔ دیکھ وہ دن آتے ہیں خُداوند فرماتا ہے کہ میں داود کے لئے ایک صادق شاخ پیدا کروں گا اور اُس کی بادشاہی ملک میں اقبال مندی اور عدالت اور صداقت کے ساتھ ہو گی۔ اس کے ایام میں یہودہ نجات پائے گا اور اسرائیل سلامتی سے سکونت کر ے گا اور اس کا نام یہ رکھا جائے گا “خُدا وند ہماری صداقت” کیونکہ خُدا وند یوں فرماتا ہے کہ اسرائیل کے گھرانے کے تخت پر بیٹھنے کے لئے داود کو کبھی آدمی کی کمی نہ ہو گی۔ اور نہ لاوی کاہنوں کو آدمیوں کی کمی ہو گی جو میرے حضور سو ختتی قُربانیاں گزرانیں اور ہدئیے چڑھائیں اور ہمیشہ قربانی کریں”۔ یرمیاہ ۵:۲۳-۶، ۱۷:۳۳-۱۸ IKDS 210.1

یہاں تک کہ مسیح کی جائے پیدائش کے بارے بھی پہلے سے بتا دیا گیا تھا۔ “لیکن بیت لحم افراتاہ اگرچہ تو یہودہ کے ہزاروں میں شامل ہونے کے لئے چھوٹا ہے تو بھی تجھ میں سے ایک شخص نکلے گا اور میرے حضور اسرائیل کا حاکم ہو گا اور اس کا مصدر زمانہ ء سابق ہاں قدیم الایام سے ہے۔ ” میکاہ ۲:۵ IKDS 210.2

اور جو کام نجات دہندہ کو کرنا تھا وہ پہلے سے ہی با تفصیل بتا دیا گیا تھا۔۔۔۔ اور خُداوند کی رُوح اُس پر ٹھہرے گی۔ حکمت اور خرد کی رُوح مصلحت اور قُدرت کی رُوح معرفت اور خُدا کے خوف کی رُوح۔ اور اس کی شادمانی خُداوند کے خوف میں ہو گی اور وہ نہ اپنی آنکھوں کے دیکھنے کے مطابق انصاف کرے گا اور نہ اپنے کانوں کے سُننے کے موافق فیصلہ کرے گا۔ “خُداوند کی رُوح مُجھ پر ہے کیوں کہ اُس نے مُجھے مسح کیا تاکہ حلیموں کو خوشخبری سناوں۔ اُس نے مُجھے بھیجا ہے کہ شکستہ دلوں کو تسلی دُوں۔ قیدیوں کے لئے رہائی اور اسیروں کے لئے آزادی کا اعلان کروں۔ تاکہ خُداوند کے سالِ مقبول کا اور اپنے خُدا کے انتقام کے روز کا اشتہار دوں اور سب غمگینوں کودلا سا دوں۔ صیّون کے غمزدوں کے لئے یہ مقرر کر دوں کہ ان کو راکھ کے بدلے سہرا اور ماتم کی جگہ خُوشی کا روغن اور اُداسی کے بدلے ستائش کا خلعت بخشوں تاکہ وہ صداقت کے درخت اور خُدا وند کے لگائے ہوئے کہلائیں کہ اس کا جلال ظاہر ہو۔ ” یسعیاہ ۲:۱۱-۳ IKDS 210.3

“دیکھو میرا خادم جس کو میں سنبھالتا ہوں میرا برگزیدہ جس سے میرا دل خُوش ہے۔ میں نے اپنی رُوح اُس پر ڈالی وہ قوموں میں عدالت جاری کرے گا۔ وہ نہ چلائے گا اور نہ شور کرے گا اور نہ بازاروں میں اُس کی آواز سنائی دے گی۔ وہ مسلے ہوئے سرکنڈے کو نہ توڑے گا اور ٹمٹماتی بتی کو نہ بُجھائے گا۔ وہ راستی سے عدالت کرے گا۔ وہ ماندہ نہ ہوگا اور ہمت نہ ہارے گا جب تک کہ عدالت کو زمین پر قائم نہ کرلے۔ جزیرے اُس کی شریعت کا انتظار کریں گے”۔ یسعیاہ ۱:۴۲-۴ IKDS 211.1

پولُس رسُول نے عہد عتیق سے ثابت کیا کہ “مسیح یسُوع کو کتاب مقدس کے مطابق دُکھ سہنا ، مرنا اورمرُدوں میں سے جی اُٹھنا ضرُوری تھا” کیا میکاہ نےبھی اس بارے پیشنگوئی نہ کی تھی؟ “وہ اسرائیل کے حاکم کے گال پر چھڑی سے مارتے ہیں” میکاہ ۱:۵ اور کیا مسیح خُداوند نے یسعیاہ کے ذریعہ خود پیشنگوئی نہ کی “میں نے اپنی پیٹھ پیٹنے والوں کے اور اپنی داڑھی نوچنے والوں کے حوالہ کی۔ میں نے اپنا منہ رسوائی تھُوک سے نہیں چھپایا”۔ یسعیاہ ۶:۵۰۔ زبور نویس کے ذریعہ مسیح خُداوند نے بتایا کہ اس کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے گا “میں آدمیوں میں اُنگشت نما ہوں اور لوگوں میں حقیر، وہ سب جو مجھے دیکھتے ہیں میرا مضحکہ اُڑاتے ہیں۔ وہ منہ چڑاتے۔ وہ سر ہلا ہلا کر کہتے ہیں اپنے کو خُدا کے سپرد کر دے۔ وہی اُسے چھڑائے۔ جبکہ وہ اُس سے خُوش ہے تو وہی اُسے چھڑائے۔ میں اپنی سب ہڈیاں گن سکتا ہوں۔ وہ مجھے تاکتے اور گھورتے ہیں۔ وہ میرے کپڑے آپس میں بانٹتے ہیں اور میری پوشاک پر قُرعہ ڈالتے ہیں۔” میں اپنے بھائیوں کے نزدیک بیگانہ بنا ہوں۔ اور اپنی ماں کے فرزندوں کے نزدیک اجنبی۔ کیوں کہ تیرے گھر کی غیرت مجھے کھا گئی۔ اور تُجھکو ملامت کرنے والوں کی ملامتیں مجھ پر آ پڑیں۔ اور میں اسی انتظار میں رہا کہ کوئی ترس کھائے پر کوئی نہ ملا۔ اور تسلی دینے والوں کا منتظر رہا پر کوئی نہ ملا” زبور ۶:۲۲-۸، زبور ۱۷:۲۲-۱۸ IKDS 211.2

مسیح یسوع کی موت اور دُکھوں کے بارے یسعیاہ نبی کی پیشنگوئیاں کتنی واضح ہیں۔ ان میں ذرا بھر غلطی کا شائبہ نہیں۔ IKDS 212.1

“ہمارے پیغام پر کون ایمان لایا؟ اور خُدا وند کا بازو کس پر ظاہر ہوا؟ پر وہ تو اسکے آگے کونپل کی طرح اور خشک زمین سے جڑ کی مانند پھوٹ نکلا ہے۔ نہ اُس کی کوئی شکل و صُورت ہے نہ خوبصورتی۔ اور جب ہم اُس پر نگاہ کریں تو کچھ حُسن و جمال نہیں کہ ہم اُس کے مشتاق ہوں۔ وہ آدمیوں میں حقیر و مردود۔ مرد غمناک اور رنج کا آشنا تھا۔ لوگ اس سے گویا رُوپوش تھے۔ اس کی تحقیر کی گئی اور ہم نے اُس کی کچھ قدر نہ جانی۔ IKDS 212.2

تو بھی اُس نے ہماری مشقتیں اُٹھا لیں اور ہمارے غموں کو برداشت کیا پر ہم نے اُسے خُدا کا مارا کوٹا اور ستایا ہُوا سمجھا۔ حالانکہ وہ ہماری خطاوں کے سبب سے گھائل کیا گیا اور ہماری بد کرداری کے باعث کُچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کے لئے اُس پر سیاست ہوئی تاکہ اُس کے مار کھانے سے ہم شفا پائیں۔ IKDS 212.3

ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ کو پھرا۔ پر خُدا وند نے ہم سب کی بدکرداری اُس پر لادی “وہ ستایا گیا تو بھی اپس نے برداشت کی اور منہ نہ کھولا۔ جس طرح برّہ جسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں اور جس طرح بھیڑ اپنے بال کترنے والوں کے سامنے بے زبان ہے اُسی طرح وہ خاموش رہا۔ وہ ظلم کر کے اور فتویٰ لگا کر اُسے لے گئے اُس کے زمانہ کے لوگوں میں سے کس نے خیال کیا کہ وہ زندوں کی زمین سے کاٹ ڈالا گیا؟ میرے لوگوں کی خطاوں کے سبب سے اُس پر مار پڑی”۔ یسعیاہ ۱:۵۳-۸۔ IKDS 213.1

بلکہ مسیح یسوع کی موت کے بارے بھی پہلے سے جتا دیا گیا تھا۔ IKDS 213.2

“اور جس طرح موسیٰ نے سانپ کو بیابان میں اُونچے پر چڑھایا اُسی طر ضرُور ہے کہ ابن آدم بھی اُونچے پر چڑھایا جائے تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔ “یوحنا ۱۴:۳-۱۶ IKDS 213.3

“اور جب کوئی اُس سے پُوچھے گا کہ تیری چھاتی پر یہ زخم کیسے ہیں؟ تو وہ جواب دے گا یہ وہ زخم ہیں جو میرے دوستوں کے گھر میں لگے”۔ زکریاہ ۶:۱۳”۔ زکریاہ ۶:۱۳۔ “اُس کی قبر بھی شریروں کے درمیان ٹھہرائی گئی اور وہ اپنی موت میں دولتمندوں کے ساتھ ہُوا حالانکہ اُس نے کسی طرح کا ظلم نہ کیا اور اُس کے منہ میں ہرگز چھل نہ تھا۔ IKDS 213.4

لیکن خُداوند کو پسند آیا کہ اُسے کُچلے۔ اُس نے اُسے غمگین کیا۔ جب اس کی جان گناہ کی خاطر قربانی کے لئے گزرانی جائے گی تو وہ اپنی نسل کو دیکھے گا۔ اُس کی عمر دراز ہو گی اور خُدا وند کی مرضی اُس کے ہاتھ کے وسیلہ سے پوری ہو گی”۔ یسعیاہ ۹:۵۳-۱۰ پُولس رسُول دکھاتا ہے کہ قربانی کی خدمت کو خُدا وند نے مسیح یسوع کے ساتھ جو خُدا کا برہ ہے مربوط کیا۔ “جس طرح برہ جسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں” مسیح نے اپنی جان “گناہ کی قربانی” کے لئے گزرانی تھی یسعیاہ نبی صدیوں آگے دیکھتا ہوا خُدا کے برے کے بارے گواہی دیتا ہے۔۔۔۔ “اس نے اپنی جان موت کے لئے انڈیل دی اور وہ خطا کاروں کا ساتھ شمار کیا گیا تو بھی اس نے بہتوں کے گناہ اٹھا لئے اور خطاکاروں کی شفاعت کی”۔ یسعیاہ ۷:۵۳، ۱۰، ۱۲ IKDS 213.5

یہودی قوم کو زمینی ستمگروں سے رہائی دلانے کے لئے پیشنگوئی کے نجات دہندہ کو عارضی شہنشاہ کے طور پر نہ آنا تھا۔ بلکہ انسانوں کے درمیان انسانی رُوپ میں رہتا، غربت اور فروتنی کی زندگی گزارنا تھی۔ اُسے رد کیا جانا اور رُسوائی اُٹھانا تھی اور بالآخر مارا جانا تھا۔ نجات دہندہ نے خُود بتایا تھا کہ عہد عتیق میں آیا ہے کہ میں گنہگاروں کے لئے فدیہ بنوں گا۔ یوں شریعت کو توڑنے کا جو مطالبہ تھا وہ لفظ بلفظ پُورا کیا گیا۔ اُس میں ہی بھیڑوں اور بکروں کی قربانیاں پوری ہونا تھیں اور پور ی یہودی قوم کے لئے یہ قربانی بڑی ہی اہم علامت رکھتی تھی۔ IKDS 214.1

پولُس نے تھسلُنیکیوں کے یہودیوں کو رسمی شریعت کے لئے اپنی پہلی سرگرمی اور دمشق کی راہ پر اپنے شاندار اور حیرت انگیز واقعہ سے آگاہ کیا۔ مسیح کو قبول کرنے سے پیشتر پُولس اپنی پارسائی پر یقین رکھتا تھا جو اس نے وراثت میں پائی تھی۔ گو یہ غلط اُمید تھی۔ مسیح میں اس کا ایمان قائم نہیں ہوا تھا برعکس اس کے وہ ریتوں رسموں میں ہی یقین رکھتا تھا۔ شریعت کے لئے جوش و خروش رکھنے کے سبب مسیح کے ایمان سے وہ کٹ چُکا تھا اور اس کے لئے بے فائدہ تھا۔ اور جب وہ فخر کرتا کہ شریعت کے اعتبار سے میں بے قصور ہوں، تو وہ حقیقت میں اس کا انکار کرتا جس کی وجہ سے شریعت کی قدر ومنزلت ہے۔ IKDS 214.2

لیکن مسیح کو قبول کرنے سے یہ سب کچھ تبدیل ہو گیا۔ یسُوع مسیح کے شاگردوں پر ظُلم کرنے وہ مسیح یسُوع کو ستاتا جو اُ س پر مسیح موعود کی حیثیت سے ظاہر ہُوا۔ ستانے والے ‘پولُس’ نے اُسے خُدا کے بیٹے کی طرح پایا جو اس دھرتی پر پیشنگوئیوں کی تکمیل کے لئے آیا اور جس پر نبیوں کے صحیفوں میں آئی ہوئی ہر بات پُوری ہوئی۔ IKDS 214.3

جیسے ہی اس نے تھسلُنیکیوں کی ہیکل میں دلیری کے ساتھ انجیل کی منادی کی تو جن رسموں کا تعلق ہیکل سے تھا ان کے حقیقی معنوں پر بڑی روشنی ڈالی گئی۔ اس نے اپنے سامعین کے ذہنوں کو زمینی ہیکل سے آسمانی ہیکل کی طرف متوجہ کیا اور بتایا کہ مسیح کا بطور درمیانی کے کام ختم ہونے پر وہ پھر بڑے جاہ و جلال کے ساتھ واپس آ کر اپنی بادشاہت قائم کرے گا۔ پولُس مسیح کی آمد ثانی میں ایمان رکھتا تھا۔ اس لئے اس نے بڑی صفائی اور قوت سے اس واقعہ کی صداقت پیش کی۔ اور اس کا اثر بہتیرے سامعین پر اس قدر ہوا کہ وہ اُسے عمر بھر نہ بُھلا سکتے۔ IKDS 215.1

تین سبتوں تک پولُس تھسلُنیکیوں کو مسیح یسوع کی زندگی، موت، مردوں میں سے جی اُٹھنا، آسمان میں اس کی خدمت اور آمد ثانی کے جلال کےبارے تعلیم دی۔ اور اُنہیں “بنای عالم کے وقت سے ذبح ہوا برہ” (مکاشفہ ۸:۱۳) کے بارے پوری تفسیر کے ساتھ دلیلیں دے دے کر سکھایا ۔ IKDS 215.2

جب انجیل کی سچائی اس قوت کے ساتھ پیش کی گئی تو اُن میں سے بہتیروں کی توجہ کو رسُول نے خُدا کی طرف مبذول کر لیا۔ “پس ان میں سے بہتیرے ایمان لائے۔ اور یونانیوں میں سے بہت سی عزت دار عورتیں اور مرد ایمان لائے” جس طرح پہلی جگہوں میں رسُولوں کو مخالفت کا سامنا رہا، یہاں بھی ایسا ہی ہُوا۔ وہ یہودی جو ایمان نہیں رکھتے تھے غصے اور حسد سے بھر گئے۔ یہ یہودی اُس وقت رومی حکومت کے حق میں نہ تھے۔ تھوڑی ہی دیر پہلے اُنہوں نے رومی حکومت کے خلاف باغیانہ تحریک چلائی تھی۔ اس لئے اُن کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور انکی آزادی بھی کسی حد تک محدود تھی۔ اُنہوں نے سوچا کہ اب حکومت کی حمایت حاصل کرنے کا اچھا موقع ہے چنانچہ اُنہوں بعاوت کی تمام ذمہ اری رسُولوں اور نئے ایماندار مسیحیوں پر ڈالنے کا منصوبہ بنایا۔ IKDS 215.3

“مگر یہودیوں نے حسد میں آ کر بازاری ادمیوں میں سے کئی بد معاشوں کو اپنے ساتھ لیا اور بھیڑ لگا کر شہر میں فساد کرنے لگے اور یاسون کا گھر گھیر کر اُنہیں لوگوں کے سامنے لے آنا چاہا” مگر اُنہیں نہ تو پولُس ملا اور نہ ہی سیلاس اور جب انہیں نہ پایا تو یاسون اور کئی اور بھائیوں کو شہر کے حاکموں کے پاس چلاتے ہوئے کھینچ لے گئے کہ وہ شخص جنہوں نے جہان کو باغی کر دیا یہاں بھی آئے ہیں۔ اور یاسون نے انہیں اپنے ہاں اُتارا ہے۔ اور یہ سب کے سب قیصر کے احکام کی مخالفت کر کے کہتے ہیں کہ بادشاہ تواور ہی ہے یعنی یسوع۔ لہٰذا فوجداری کے حاکموں نے پولُس اور سیلاس کو نہ پا کر یاسون اور باقیوں کی ضمانت لے کر اُنہیں چھوڑ دیا ۔ مزید ہنگامے سے بچنے کے لئے بھائیوں نے پولُس اور سیلاس کو فوراً بیریہ میں بھیج دیا۔ IKDS 216.1

جو موجودہ دَور میں غیر مقبول سچائیوں کی تعلیم دیتے ہیں؟ اگر ان کی دلجوئی نہیں ہوتی تو انہیں پست ہمت ہونے کی ضرُورت نہیں۔ صلیب کے ایلچیوں کو دُعا کے ہتھیار سے خُود کو لیس کرنا اور ایمان اور ہمت سے آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔ اُنہیں چاہیئے کہ مسیح یسوع کو آسمانی ہیکل میں بنی نوع انسان کے حق میں بطور سفارشی کے پیش کریں جس میں عہد عتیق کی تمام رسمی قُربانیاں پوری ہو چُکی ہیں۔ اور جس کے کفارہ سے خُداوند کی شریعت کو توڑنے والوں کو گناہوں سے معافی مل جاتی ہے۔ IKDS 216.2