ابتدائ کليسياء کے درخشاں ستارے
باب ۳ - عظیم حُکم
مسیح کی موت کے بعد شاگرد نہایت ہی پست ہمت اور بے دل ہو گئے۔ اُن کے آقا کو ٹھکرا کر اور مُجرم ٹھہرا کر مصلُوب کر دیا گیا۔ کاہنوں اور حاکموں نے ٹھٹھے مارتے ہوئے کہا کہ اس نے اوروں کو بچایا اپنے تئیں نہیں بچا سکتا۔ یہ تو اسرائیل کا بادشاہ ہے۔ اب صلیب پر سے اُتر آئے تو ہم اس پر ایمان لائیں” متی ۴۲:۲۷ شاگردوں کی اُمیدوں کا سورج غروب ہو چکا تھا اور رات کی تاریکی نے اُن کے دلوں پر ڈیرہ جما لیا۔ وہ اکثر اس طرح کی مایوس گفتگو کرتے “لیکن ہم کو اُمید تھی کہ اسرائیل کو مخلصی یہی دے گا” لوقا ۲۱:۲۴ تنہائی اور مایوسی کے باوجود وہ اُس کے اس کلام پر غور کرتے رہے۔ “کیوں کہ جب ہرے درخت کے ساتھ ایسا کرتے ہیں تو سوکھے کے ساتھ کیا کچھ نہ کیا جائے گا؟ ” لوقا ۳۱:۲۳ IKDS 17.1
خداوند یسوع مسیح نے شاگردوں کو بار رہا مستقبل کے بارے بتانے کی کوشش کی تھی۔ مگر اُنہوں نے اس کے کلام پر بالکل غور نہ کیا۔ اسی لحاظ سے اُس کی موت اُن کے لئے حیرانی کا باعث بن گئی۔ اس کے بعد جب اُنہوں نے ماضی کا اعادہ کر کے اپنی کم اعتقادی کے نتیجہ کو دیکھا تو وہ غم سے بھر گئے۔ جب مسیح مصلوب ہو گیا تو اُنہیں یقین نہیں تھا کہ وہ مردوں میں سے جی اُٹھے گا۔ جبکہ اُس نے بڑی صفائی سے اُن کو پہلے سے بتا دیا تھا کہ وہ تیسرے دن زندہ ہو جائے گا۔ مگر وہ اُسکی اس بات سے شُشدر رہ گئے کیونکہ نہں جانتے تھے کہ اس اُس کی کیا مراد ہے؟ مسیح کی باتوں کو نہ سمجھنے کی وجہ سے وہ اُس کی موت سے نا اُمید ہو گئے۔ اگر وہ خُدا وند مسیح کے کلام کا یقین کر لیتے تو بہت بڑی مایوسی سے بچ سکتے تھے۔ نا اُمیدی، غم اور حسرت و یاس سے چکنا چُور تمام شاگرد بالائی منزل میں جمع ہوئے اور اس خوف سے دروازے بند کر لئے مُبادہ وہ بھی اپنے آقا کی طرح موت کا لقمہ بن جائیں۔ اسی جگہ مسیح خُدا وند مردوں میں سے زندہ ہو کر اُن پر ظاہر ہُوا۔ IKDS 17.2
چالیس دن تک مسیح مردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد اس دھرتی پر رہا تاکہ شاگردوں کو اُس کام کے لئے تیار کرے جو اُن کے سامنے تھا۔ اور اُن کو اس دوران وہ ساری باتیں جو وہ پہلے نہیں سمجھتے تھے سمجھا دے۔ اُس نے اُن سے وہ پیشنگوئیاں بیان کیں جو اسکی پہلی آمد، یہودیوں کا اسے رد کرنا اور موت کے بارے تھیں۔ اُس نے اُن کو تفصیل سے سمجھا یا کہ کس طرح اُن تمام پیشنگوئیوں کی تکمیل ہو گئی ہے۔ اور تاکید کی کہ وہ اُن پیشنگوئیوں کی تکمیل پر خوش ہوں، کیونکہ اب انہیں وہ قوت ملنے کو ہے جو مستقبل میں اُن کی خدمت میں مددگار ثابت ہو گئی۔ IKDS 18.1
“تب اُس نے اُن کا ذہن کھولا تاکہ کتاب مقدس کو سمجھیں۔ اور اُن سے کہا یوں لکھا ہے کہ مسیح دُکھ اٹھائے گا اور تیسرے دن مردوں میں سے جی اُٹھے گا۔ اور یروشیلم سے شروع کر کے سب قوموں میں توبہ اور گناہوں کی معافی کی منادی اس کے نام سے کی جائے گی تم ان باتوں کے گواہ ہو” ۔ لوقا ۴۵:۲۴-۴۸ IKDS 18.2
آخری چالیس دن جو مسیح یسوع نے اپنے شاگردوں کے ساتھ بسر کئے اس دوران شاگردوں نے نئے تجربات حاصل کئے۔ تمام واقعات جو رُونما ہوئے تھے، جب اُنہوں نے اپنے آقا کی زبانی سُنے کہ وہ کتاب مقدس کے عین مطابق ہیں تو اُن کا ایمان بحال ہو گیا۔ اب وہ اُس مقام پر آ گئے جہاں وہ کہ کہہ سکتے تھے” جس کا میں نے یقین کیا ہے اُسے جانتا ہوں”۔ ۲- تیمتھیس ۱۲:۱ IKDS 18.3
وہ اپنے کام کی نوعیت، وسعت اور اہمیت سے واقف ہونے لگے۔ اور انہیں احساس ہونے لگا کہ وہ سچائیاں جو اُنہیں مسیح سے ملی ہیں تمام دنیا تک پہنچانا ہے۔ مسیح یسوع کی سوانح حیات، اس کی موت اور جی اُٹھنا اور وہ پیشنگوئیاں جو ان واقعات سے علاقہ رکھتی تھیں، نجات کے منصولے کا بھید، گناہ کی معافی کے لئے مسیح یسوع کی قدرت ان سب کے وہ گواہ تھے اور انہیں یہ تمام باتیں دنیا کو بتانا تھیں۔ انہیں تو نجات اور امن کی انجیل پیش کرنا تھی جو نجات دہندہ کی موت سے ممکن تھی۔ IKDS 18.4
آسمان پر صعود فرمانے سے قبل خداوند مسیح نے اپنے شاگردوں کو یہ حکم دی کہ تم میری مرضی بجا لانے کا وسیلہ ہو جس کے ذریعہ میں دُنیا کو ابدی زندگی عطا کروں گا۔ تُم میری قربانی کے گواہ ہو جو میں نے دنیا کے لئے دی ہے۔ تم نے یہ بھی دیکھا کہ میں نے کس طرح بنی اسرائیل کے لئے بھی خدمت انجام دی ہے۔ گو میرے لوگ زندگی پانے کے لئے میرے پاس نہیں آئے اور اگرچہ کاہنوں اور حاکموں نے مجھے رد کر دیا پھر بھی اُن کے پاس خُدا کے بیٹے کو قبول کرنے کا ایک اور موقع موجود ہے۔ تم نے یہ دیکھا کہ جو کوئی گناہوں کا اقرار کرنے میرے پاس آیا میں نے اُسے قبول کیا۔ جو میرے پاس آئے گا میں اُسے نکال نہ دوں گا۔ میرے شاگردو! میں رحم کا یہ پیغام تم کو سونپتا ہوں جو یہودیوں اور غیر قوم والوں کے لئے ہے۔ یہ پیغام پہلے بنی اسرائیل کے لئے ہے اور پھر تمام قوموں اور اہل زبان کے لئے ہے اور جتنے ایمان لائیں وہ سب ایک کلیسیا میں شامل ہوں۔ IKDS 19.1
انجیل کی مُنادی کا حکم مسیح کی بادشاہی کے لئے عظیم معاہدہ ہے۔ رُوحوں کو جیتنے کے لئےشاگردوں کو بڑی تندہی اور ایمانداری سے خدمت کرنا تھی۔ انہیں اس بات کا انتظار نہیں کرنا تھا کہ لوگ اُن کے پاس آئیں بلکہ اُنہیں رحم کے پیغام کے ساتھ اُس جگہ خُود پہنچنا تھا جہاں لوگ موجود تھے۔ IKDS 19.2
شاگردوں کے لئے لازم تھا کہ وہ اپنی خدمت کو مسیح یسوع کے نام میں آگے بڑھائیں۔ اُن کا ہر عمل اور لفظ اُسی کے نام کے لئے استعمال ہونا تھا جس کے نام کے وسیلہ گنہگار بچائے جاتے ہیں۔ اُن کے ایمان کا مرکز تو یہی تھا جو رحم اور قدرت کا چشمہ ہے۔ اسی کے نام میں انہیں خدا وند سے دُعا کرنا تھی تاکہ خُدا وند اُن کی دُعا کو سُنے۔ انہیں باپ، بیٹے اور روح القدس کے نام بپتسمہ دینا تھا۔ یسوع نام ان کا نعرہ، اُن کی پہچان، اُن کے اتحاد کا بندھن اور ان کی کامیابی کا منبع تھا۔ جس پر یسوع نام کی مہر نہ ہو گی وہ خدا کی بادشاہی کے لائق نہ ہو گا۔ IKDS 20.1
جب خُدا وند یسوع مسیح نے شاگردوں کو کہا میرے نام میں جاو اور جو ایمان لائے اُسے کلیسیا میں شامل کرو، اُس وقت اُس نے اپن کے سامنے سادگی کی ضرورت اور اسے برقرار رکھنے پر زور دیا۔ ظاہری نمائش اور دکھاوا جس قدر کم ہو گا نیکی اور بھلائی کے لئے اُن کا اُتنا ہی زیادہ اثر ہو گا۔ شاگردوں کو اسی سادگی سے کلام کرنا تھا جس سادگی سے اُن کے آق نے کیا تھا۔ جو اسباق اُن کے آقا نے انہیں سکھائے تھے انہی کی تاثیر انہیں سامعین پر چھوڑنی تھی۔ IKDS 20.2
مسیح یسوع نے اپنے شاگردوں کو یہ نہیں کہا تھا کہ تمہارا کام قدرے آسان ہو گا۔ اُس نے انہیں بدی کی فوجیں دکھائیں جو انہین گھیرے ہوئے تھیں۔ چنانچہ لکھا ہے کہ “حکومت والوں اور اختیار والوں اور اس دنیا کی تاریکی کے حاکموں اور شرارت کی اُن روحانی فوجوں سے جو آسمانی مقاموں میں ہیں جنگ کرنا تھی” افسیوں ۱۲:۶ لیکن اُنہیں یہ جنگ تنہا نہیں لڑنا تھی۔ اُس نے انہیں یقین یقین دلایا کہ وہ اُن کے ساتھ ہو گا۔ اور اگر وہ ایمان سے آگے بڑھیں گے تو قادر مطلق کا جھنڈا اُن کے سر پر ہو گا۔ اُس نے انہیں حکم دیا کہ مضبوط اور دلیر ہوں کیونکہ اُن کے ساتھ آسمانی جرنیل جو فرشتوں سے بھی طاقتور ہے اُن کے ساتھ ہوگا۔ اُس نے معاملہ کی ہر طرح سے جانچ پڑتال کر لی ہے اور کامیابی کی ساری ذمہ داری اُٹھا رکھی ہے۔ جب تک وہ اُس کا حُکم مانتے اور اس کے ساتھ مل کر کام کرتے رہیں گے، اُنہیں ناکامی کا منہ دیکھنا نہ پڑے گا۔ اُس نے اُنہیں حُکم دیا کہ تمام قوموں کے پاس جاو۔ دُنیا کے کونے کونے تک انجیل کی منادی کرو۔ مگر یاد رکحو کہ میری حضوری تمہارے شامل حال رہے۔ ایمان اور پورے بھروسے سے خدمت کرتے رہیں کیونکہ ایسا وقت کبھی بھی نہیں آئے گا جب میں تمہیں ترک کروں گا۔ میں ہر وقت تمہارے ساتھ رہوں گا تاکہ تم اپنے فرائض منصبی کو بخوبی انجام دے سکو۔ میں تمہاری رہبری کروں گا، میں تمہیں تسلی دُوں گا، تمہیں مقدس اور پاک کروں گا، تمہیں قائم رکھوں گا اور کلام کرتے وقت تمہیں کامیابی سے ہمکنار کروں گا تاکہ اس کے ذریعہ لوگوں کی توجہ آسمانی باپ کی طرف مبذول ہو جائے۔ IKDS 20.3
انسان کے حق میں جو کفارہ مسیح خداوند نے دیا تھا وہ کامل اور بھر پور تھا۔ کفارہ کے لئے جو شرط مقرر تھی اُس کی تکمیل کی گئی۔ اور جس خدمت کو انجام دینے کے لئے مسیح یسوع اس دنیا میں آیا وہ پورا ہو گیا۔ اُس نے بادشاہت جیت لی۔ اور ابلیس کے ساتھ جنگ آزمائی کر کے ہر چیز کا وارث بن گیا۔ اب وہ خدا کے تخت کی طرف صعود فرما رہا تھا تاکہ آسمانی افواج اُس کے لئے گورنش بجا لائیں۔ چنانچہ کل اختیار سے مُلبس ہو کر اپس نے اپنے شاگردوں کو یہ حکم دیا۔ “پس تم جا کر سب قوموں کوشاگرد بناو اور اُن کو باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نام سے بپتسمہ دو۔ اور اُن کو یہ تعلیم دو کہ ان سب باتوں پر عمل کریں جن کا میں نے تم کو حکم دیا اور دیکھو میں دنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں”۔ متی ۱۵:۲۸-۲۰ IKDS 21.1
شاگردوں سے وداع ہونے سے تھوڑی دیر پہلے خداوند یسوع مسیح نے بڑی وضاحت اور صفائی سے اپنی بادشاہت کے بارے بتایا کہ وہ کس طرح کی ہو گی۔ اپنی بادشاہت کے بارے جو کچھ اس نے انہیں پہلے بتا دیا تھا دوبارہ اُنہیں یاد دلایا۔ اُس نے اُنہیں بتایا کہ یہ اُسکا ہرگز مقصد نہیں کہ وہ اس دنیا میں عارضی اور ناپائیدار بادشاہی قائم کرے۔ وہ زمین کے بادشاہ داود کے تخت پر حکومت کرنے کے لئے مقرر نہیں کیا گیا۔ اور جب شاگردوں نے اُس سے پوچھا کہ اے خداوند! کیا تو اسی وقت اسرائیل کو بادشاہی پھر عطا کرے گا؟ اُس نے اُن سے کہا اُن وقتوں اور معیادوں کا جاننا جنہیں باپ نے اپنے ہی اختیار میں رکھا ہے تمہارا کام نہیں۔ اعمال ۶:۱-۷ اور اُن کے لئے ضروری نہ تھا کہ وہ اُس مکاشفہ سے زیادہ جانتے جو اُس نے انہیں پہلے سے بتا دیا تحا۔ اور نہ ہی مزید مستقبل کے بارے جاننا اُن کے لئے ضروری تھا۔ اُن کا کام تو صرف انجیل کی منادی کرنا تھا۔ IKDS 21.2
یسوع جسمانی اور دیدنی (VISIBLE) طور پر شاگردوں سے علیحدہ ہونے کو تھا لیکن اس کے عوض انہیں ایک نئی قوت نصیب ہونے کو تھی۔ انہیں روح القدس بھر پوری کے ساتھ ملنے کو تھا جس نے اُن کے کام کے لئے اُن پر مہر کرنا تھی۔ چنانچہ یسوع مسیح نے فرمایا۔۔۔ “اور دیکھو جس کا میرے باپ نے وعدہ کیا ہے میں اُس کو تم پر نازل کروں گا۔ لیکن جب تک عالم بالا سے تم کو قوت کا لبادہ نہ ملے۔ اس شہر میں ٹھہرے رہو”۔ لوقا ۴۹:۲۴ ۔ “کیونکہ یوحنا نے تو پانی سے بپتسمہ دیا مگر تم تھوڑے دنوں کے بعد روح القدس سے بپتسمہ پاو گے۔ “اعمال ۵:۱ “لیکن جب روح القدس تم پر نازل ہو گا تو تم قوت پاو گے اور یروشلیم اور تمام یہودیہ اور سامریہ میں بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہو گے” ۔ اعمال ۸:۱۔ IKDS 22.1
مسیح خدا وند یہ بخوبی جانتا تھا کہ بحث و تکرار خواہ کتنی ہی معقل کیوں نہ ہو دلوں کو موم نہیں کر سکتی اور نہ ہی مادیت اور خود غرضی کو دور کر سکتی ہے۔ لہٰذا وہ جانتا تھا کہ اُس کے شاگردوں کو آسمانی قوت حاصل کرنا ازحد ضروری ہے۔ انجیل تبھی موثر ہو سکتی ہے جب انجیل پھیلانے والے دل روح القدس سے بھر جائیں، اور بیان کرنے والے ہونٹ اُسکی بدولت فصیح ہو جائیں جو راہ، حق اور زندگی ہے۔ جو کام شاگردوں کے سپرد کیا گیا اُس کے لئے اُنہیں بڑی مہارت اور قابلیت کی ضرورت تھی کیونکہ بدی کی لہریں اُن کے خلاف بڑی تُند اور گہری بہہ رہی تھیں۔ تاریکی کی فوجوں کی کمان اُس کے ہاتھ میں ہے جو بڑا چالاک، بیدار اور ہوشیار ہے۔ اور مسیح کے شاگرد سچائی کے لئے اُسی صورت میں جنگ کر سکتے ہیں جب اُن کا مدد گار خدا وند اور روح القدس ہو۔ IKDS 22.2
یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو بتایا کہ وہ اپنی خدمت کا آغاز یروشلیم سے کریں۔ وہ شہر بنی نوع انسان کے لئے اُسکی حیرت انگیز قربانی کا منظر رہا تھا۔ مسیح یسوع انسانی شکل میں وہاں انسانوں کے درمیان چلتا پھرتا اور کلام کرتا تھا اور بہت کم لوگوں نے یہ جانا کہ آسمان زمین کے کس قدر قریب آ گیا ہے۔ وہیں اُسے مُجرم ٹھہرایا اور مصلوب کیا گیا۔ یروشلیم میں بہتیرے ایسے تھے جو خفیہ طور پر یسوع ناصری پر ایمان لے آئے اور تسلیم کر لیا تھا کہ یہی آنے والا مسیح ہے۔ یروشلم میں بہتیری ایسی بھی روحیں تھیں جنہیں کاہنوں اور سرداروں نے دھوکے میں رکھا تھا۔ اُن سبھوں میں انجیل کی منادی ہونا لازم تھی اور اُنہیں توبہ کا موقع ملنا چاہیے تھا۔ اُن کے سامنے اس صداقت کو بھی بڑی سادگی کے ساتھ بیان کیا جانا ضروری تھا کہ صرف مسیح کے وسیلہ ہی گناہوں کی منافی حاصل ہو سکتی ہے۔ اور یہ اُس وقت کی بات ہے جب چند ہفتوں سے یروشلیم میں مسیح کی موت اور جی اُٹھنے کے واقع سے افراتفری کا عالم تھا۔ اس دوران شاگردوں کی منادی عوام پر بڑا گہرا تاثر چھوڑ سکتی تھی۔ IKDS 23.1
اپنی زمینی خدمت کے دوران مسیح یسوع شاگردوں کو مسلسل جتا تا رہا کہ دنیا کو گناہ کی غلامی سے آزاد کرانے کے لئے اُنہیں اُس کے ساتھ متحد ہونا ہو گا۔ جب اُس نے پہلے بارہ کو اور بعد میں ستّر کو خدا کی بادشاہی کی منادی کے لئے بھیجا تو اُس نے اُنہیں سکھایا کہ کس طرح وہ دوسروں کو سکھائیں جو اُنہوں نے اُس سے سیکھا تھا۔ اپنی تمام خدمت کے دوران وہ انہیں انفرادی طور پر خدمت کرنے کی تربیت دیتا رہا تاکہ وہ بعد میں دنیا کی حدوں تک اُسکے کلام کو لے جائیں۔ آخری سبق جو اُس نے اپنے شاگردوں کو دیا وہ یہ تھا کہ وہ دنیا کو نجات کی خوشخبری پہنچائیں۔ IKDS 23.2
جب خداوند یسوع مسیح کا اپنےباپ کے پاس جانے کا وقت آ گیا تو وہ اپنے شاگردوں کو بیت عنیاہ کو لے گیا۔ وہاں وہ ٹھہرا اور شاگرد اس کے گرد جمع ہوئے۔ برکت دیتے ہوئے کھُلے ہاتھ انہیں یقین دلا رہے تھے کہ میں ہمیشہ تمہیں سنبھالے رہوں گا۔ وہ اُن کے درمیان سے آہستہ آہستہ آسمانی کی طرف صعود فرما گیا۔ جب وہ انہیں برکت دے رہا تھا تو ایسا ہوا کہ اُن سے جدا ہو گیا اور آسمان پر اُٹھایا گیا”۔ لوقا ۵۱:۲۴ IKDS 24.1
جب شاگرد بڑی حیرانی سے آسمان پر اُٹھائے جانے والے اپنے آقا کی آخری جھلک دیکھ رہے تھے تو آسمانی فرشتوں کے گروہ اُسے آملے۔ جب یہ فرشتے اُسے آسمانی بارگاہوں میں لے جارہے تھے تو وہ فتح کا یہ گیت گاتے جارہے تھے۔ “اے زمین کی مملکتو! خدا کے لئے گاو، خدا وند کی مدح سرائی کرو، اُسی کی جو فلک الافلاک پر سوار ہے۔ خُدا ہی کی تعظیم کرو۔ اُسکی حشمت اسرائیل میں ہے اور اُسکی قدرت افلاک پر”۔ زبور ۳۲:۶۸-۳۴ IKDS 24.2
شاگرد ابھی تک آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے جب “دو مرد سفید پوشاک پہنے اُن کے پاس آ کھڑے ہوئئے اور کہنے لگے اے گلیلی مردو یہاں کیوں کھڑے آسمان کی طرف دیکھتے ہو؟ یہی یسوع جو تمہارے پاس سے آسمان پر اُٹھایا گیا ہے اسی طرح پھر آئے گا جس طرح تم نے اُسے آسمان پر جاتے دیکھا ہے”۔ اعمال ۱۰:۱-۱۱ IKDS 24.3
مسیح یسوع کی آمد ثانی کا وعدہ شاگردون کے ذہنوں میں ہمیشہ تازہ رہا۔ وہی یسوع جسے اُنہوں نے آسمان پر جاتے دیکھا تھا دوبارہ اُن کو لینے کے لئے آئے گا۔ اُن سب کو جنہوں نے خود کو اُسکی خدمت کے لئے وقف کر رکھا ہے، وہی آواز جس نے انہیں کہا تھا کہ دیکھو میں دنیا کے آخر تک تمہارے ساتھ ہوں وہی آواز انہیں آسمانی بادشاہت میں اپنے حضور خوش آمدید کہے گی۔ IKDS 24.4
جیسے سردار کاہن اپنا چوغہ اُتار دیتا تھا اور عام کاہن کا چوغہ پہن کر خدمت ادا کرتا تھا اُسی طرح مسیح یسوع نے اپنا شاہی لباس اُتار دیا اور بُشریت کا جامہ پہن لیا اور کاہن ہوتے ہوئے اپنی قربانی پیش کی۔ وہ خود ہی برہ اور خود ہی کاہن بنا۔ اور جس طرح سردار کاہن پا کترین مقام سے باہر آتا تھا وہ اپنا لباس زیب تن کر لیتا تھا اُسی طرح جب خدا وند مسیح دوسری بار آئے گا تو سفید ترین لباس میں ملبس ہو گا۔ “اور اُس کی پوشاک ایسی نورانی اور نہایت سفید ہو گی کہ دنیا میں کوئی دھوبی ویسی سفید نہیں کر سکتا”۔ مرقس ۳:۹ ۔ آمد ثانی کے موقع پر یسوع مسیح اپنے جلال میں آئے گا۔ اور اپنے باپ کے جلال میں آئے گا۔ اور اُس کے ساتھ آسمانی فرشتے آئیں گے۔ IKDS 25.1
تب وہ وعدہ جو مسیح نے اپنے شاگردوں کے ساتھ کیا تھا وہ پورا ہوگا۔ “پھر آ کر تمہیں اپنے ساتھ لے لوں گا” ۔ یوحنا ۱۴:۳ وہ سب جنہوں نے اُسکا انتظار کیا ہے اور اُسے محبت دکھائی ہے وہ اُنہیں ابدی زندگی دے گا اور جلالی تاج پہنائے گا۔ راستباز مردے اپنی قبروں سے باہر نکل آئیں گے اور زندہ راستباز ہوا میں اُڑ کر اُسکا استقبال کریں گے۔ وہ یسوع مسیح کی آواز سنیں گے۔ ایسی سُریلی آواز اُن کے کانوں میں اس سے پہلے کبھی نہ پڑی تھی اور وہ آواز اُن سے یوں مخاطب ہو گی۔ “آو میرے باپ کے مبارک لوگو جو بادشاہی بنائی عالم سے تمہارے لئے تیار کی گئی ہے اسے میراث میں لو” ۔ متی ۳۴:۲۵ IKDS 25.2