ابتدائ کليسياء کے درخشاں ستارے

16/58

باب ۱۶ - انطاکیہ میں انجیل کا پیغام

اعمال ۱۹:۱۱-۲۶ تا ۱:۱۳-۳

ظُلم کے سبب جب شاگرد یروشلیم سے پراگندہ ہو گئے تو انجیل کا پیغام بڑی سُرعت سے فلسطین کی سرحدوں سے باہر پھیل گیا اور ایمان داروں کی چھوٹی چھوٹی ٹولیاں کئی اہم مراکز میں قائم ہو گئیں۔ بعض شاگرد پھرتے پھرتے ففیکے، اور کپرس اور انطاکیہ جا پہنچے، اور وہاں کلام کی مُنادی کی” ان ی مُنادی زیادہ تر یہودیوں اور یونانی مائل یہودیوں تک ہی محدود تھی جہاں اُن کی بڑی بڑی بستیاں آباد تھیں۔ اور تقریباً تمام بڑے شہروں میں ان کی بستیاں پائی جاتی تھیں۔ IKDS 144.1

جن جگہوں کا اُوپر ذکر کیا گیا ہے اُن میں انطاکیہ ایسا شہر تھا جہاں انجیل کو بڑی خوشی سے قبول کیا گیا۔ انطاکیہ اُس وقت شام کا دارالخلافہ تھا اور بہت سی قوموں کے لئے بہت بڑا تجارتی مرکز بن چُکا تھا۔ اس کے علاوہ آرام پسند اورعیش پرست عناصر کے لئے یہ بہت ہی معقُول جگہ تھی۔ کیونکہ اس کا گردوپیش خوبصورت اور محل وقوع صحت افزا تھا۔ یہ دولت مند ، تہذیب و تمدن کے لحاظ سے ترقی یافتہ تھا اور اس کی ہر چیز دوسری جگہوں کی نسبت خوبصُورت، پائیدار اور کامل تھی۔ رسولوں کے زمانہ میں یہ شہر عیش و نشاط اور بدی کا اڈا بن چُکا تھا۔ IKDS 144.2

انطاکیہ میں عوامی منادی بعض اُن شاگردوں نے کی جو کپرسی اور کرینی تھے” خُدا وند یسوع کی خوشخبری کی باتیں سنانے لگے” خُدا وند کا ہاتھ اُن پر تھا۔ اور انکی محنت پھلدار ثابت ہوئی۔ چنانچہ بہت سے لوگ ایمان لا کر خُدا وند کی طرف رجوع ہوئے۔ IKDS 144.3

“یہ خوشخبری یروشلیم کی کلیسیا کے کانوں تک پہنچی اور اُنہوں نے برنباس کو انطاکیہ تک بھیجا۔ وہ پہنچ کر اور خُدا کا فضل دیکھ کر خُوش ہوا اور اُن سب کو نصیحت کی کہ دلی ارادہ سے خُدا وند سے لپٹے رہو”۔ ۲۱:۱۱-۲۳ IKDS 145.1

انطاکیہ میں برنباس کی خدمت بابرکت ثابت ہوئی اور اُس کی خدمت سے بہت سے نئے ایماندار خُدا کی جماعت میں آ ملے۔ چونکہ کام بڑھتا اور ترقی کرتا گیا چنانچہ برنباس نے کسی اور کی مدد حاصل کرنے کا بھی سوچا تاکہ خُدا کا کلام یہاں مزید آگے بڑھے۔ پس وہ تراوس میں پولُس کو ڈھونڈ نے کو گیا جو یروشلیم سے نکلنے کے بعد شام اور کلکیہ میں اُس ایمان میں کی منادی کر رہا تھا جسے اُس نے ایک بار برباد کر دیا گیا تھا۔ گلتیوں ۲۱:۱-۲۳ برنباس پولُس کو ڈھونڈنے اور اس کو انطاکیہ میں لانے میں کامیاب ہو گیا نیز اُسے اپنے ساتھ مل کر خدمت کرنے کے لئے بھی راضی کر لیا۔ IKDS 145.2

پولُس نے انطاکیہ کو جو آبادی کے لحاظ سے بہت بڑا شہر تھا، مسیح کی خدمت کے لئے نہایت ہی اعلیٰ کھیت پایا۔ اس کی تعلیم، حکمت اور جوش و جذبے نے وہاں کے باشندوں اور اجنبیوں پر بڑا اثر ڈالا، اور برنباس جس قسم کی مدد کا خواہاں تھا وہ پولُس نے مہیا کر دی۔ دو سال تک دونوں شاگرد متحد ہو کر خدمت کرتے رہے اور بہت سی روحوں کو یسُوع ناصری کے چرنوں میں لے آئے جو دُنیا کا نجات دہندہ ہے۔ IKDS 145.3

یہ انطاکیہ ہی تھا جہاں شاگرد پہلے مسیحی کہلائے۔ یہ نام اُنہیں اس لئے دیا گیا کیوں کہ ان کی منادی اور گفتگو کا مرکز مسیح تھا۔ وہ مسلسل مسیح یسُوع کے اُن واقعات کو دُہراتے جو اس کی خدمت کے دوران وقوع میں آئے اور جب وہ اُس کی ذاتی موجودگی سےفیض یاب ہوئے تھے۔ وہ اُس کی تعلیم اور مُعجزات پیش کرتے ہوئے نہ تھکتے اور نہ اُکتاتے تھے۔ غم سے کپکپاتے لبوں، آنسووں سے تر آنکھوں کے ساتھ وہ گنسمنی باغ کی جان کنی کا واقعہ بیان کرتے۔ دھوکے سے پکڑوائے جانے اور تفتیش اور موت کا فتویٰ، اس کا صبرو تحمل، فروتنی اور اُن دُشمنوں کے لئے دُعا جو اُسے ستاتے تھے بڑے دُکھ کے ساتھ بیان کرتے، مردوں میں سے جی اُٹھنا، آسمان پر چڑھنا اور گنہگار انسان کے لئے درمیانی کے طور پر آسمان پر اُس کا کام اُن کے دلپسند موضوع ہوتے تھے۔ بت پرستوں نے اُنہیں ٹھیک ہی مسیحی نام دیا تھا کیونکہ وہ مسیح نام کا پرچار کرتے تھے اور اپنی دعائیں اور منا جاتیں مسیح کے نام سے خُدا کے حضور گزرانتے تھے۔ IKDS 145.4

یہ خُدا تھا جس نے اُنہیں “مسیحی” نام دیا۔ یہ شاہی نام ہے جو اُن سبھوں کو دیا جاتا ہے جو مسیح یسُوع میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اس نام کے بارے بعقوب نے بعد میں لکھا “کیا دولتمند تُم پر ظلم نہیں کرتے اور وہی تُمہیں عدالتوں میں گھسیٹ کر نہیں لے جاتے؟ کیا وہ اس بُزرگ نام پر کُفر نہیں بکتے جس تُم نامزد ہو”۔ یعقوب ۶:۲-۷ پطرس نے یوں فرمایا ” لیکن اگر مسیحی ہونے کے باعث کوئی شخص دُکھ پائے تو شرمائے نہیں بلکہ اس نام کے سبب سے خُدا کی تمجید کرے، اگر مسیح کے نام کے سبب سے تمہیں ملامت کی جاتی ہے تو تُم مُبارک ہو کیوں کہ جلال کا رُوح یعنی خُدا کا رُوح تُم پر سایہ کرتا ہے”۔ ۱۔ پطرس ۱۶:۴-۱۴ IKDS 146.1

انطاکیہ کے ایماندارون نے محسُوس کیا کہ خُدا اُن کی زندگیوں میں کام کرنا چاہتا تھا ۔ “کیوں کہ جو تُم میں نیت اور عمل دونوں کو اپنے نیک ارادہ کو انجام دینے کے لئے پیدا کرتا ہے وہ خُدا ہے”۔ فلپیوں ۱۳:۲ وہ ایسے لوگوں میں بُو دوباش رکھتے تھے جن کے نزدیک ابدی چیزوں کی چنداں قدرو منزلت نہ تھی۔ اس کے باوجود اُنہوں نے اُن کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کیا اور اس خُداوند کی مثبت گواہی دی جس کو وہ پیار کرتے اور جس کی وہ دل و جان سے خدمت کرتے تھے۔ اپنی اس حلیمی اور فروتنی سے بھر پور خدمت میں اُنہوں نے رُوح القدس پر بھروسہ کرنا سیکھ لیا تھا جو زندگی کے کلام کو موثر بناتا ہے۔ پس اُنہوں نے ہر طبقہ اور زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں تک رہنمائی کر کے مسیح یسوع میں اپنے ایمان کی گواہی دی۔ IKDS 146.2

انطاکیہ کے مسیحیوں کا نمونہ اُن تمام ایمانداروں کے لئے مشعل راہ ہونا چاہئے جو موجودہ زمانہ میں بڑے بڑے شہروں میں مقیم ہیں۔ یہ خُدا وند کی مرضی کے عین مطابق ہے کہ مخصوص شُدہ اور چنیدہ کار گزار جو مختلف توڑے بھی رکھتے ہیں وہ گنجان آبادی والی اہم جگہوں اور شہروں میں رہ کر عوام تک رسائی کریں۔تاہم اُس کا یہ بھی منشور ہے کہ ان شہروں میں بسنے والے ایماندار بھی روحوں کوجیتنے کے لئے ان توڑوں کو کام میں لائیں جو مسیح یسُوع نے اُنہیں دے رکھے ہیں۔ جو کلی طور پر خُود کو خُدا وند کی بلاہٹ کے تابع کر دیتے ہیں اُن کے لئے خُداوند کے خزانہ میں غیر معمولی برکات موجود ہیں۔ جب ایسے کارگزار مسیح کے لئے رُوحوں کو جیتنے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں اُنہیں بخوبی علم ہو جاتا ہے کہ جن لوگوں تک کسی اور ذریعہ سے رسائی ممکن نہ تھی وہ شخصی کوششوں کا جواب دینے کےلئے تیار ہیں۔ IKDS 147.1

اس دھرتی پر خُداوند کے کام کو قائم و دائم رکھنے کے لئے آج بائبل کی سچائی کےزندہ نمائندگان کی ضرورت ہے۔ تنہا مخصوص شُدہ پاسبان بڑے بڑے شہروں کو آگاہی دینے کی خدمت کے لئے ناکافی ہیں۔ خُدا وند صرف پاسبانوں کو ہی بلاہٹ نہیں دیتا بلکہ طبیبوں، نرسوں، کالپورٹوں، بائبل کے ورکروں اور مختلف توڑے رکھنے والے دوسرے مخصوص شُدہ لے مین (Lay Men) کو بھی بلاتا ہے جو خُداوند کے کلام اور اس کے فضل کی قُوت سے بھی واقف ہیں۔ اُنہیں ان شہروں کی ضُرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے جہاں آگاہی کا کلام نہیں پہنچا، گواہی دینا چاہئیے۔ وقت بڑی تیزی سے گزُر رہا ہے اور کابہت زیادہ ہے جسے ہم نے انجام دینا ہے۔ ہر ایک ذرائع کو کام میں لایا جائے تاکہ موجودہ مواقع جات سے بھر پُور فائدہ اُٹھایا جا سکے۔ IKDS 147.2

برنباس کے ساتھ انطاکیہ میں پولُس رسول کی خدمت نے پولس کی اس قائلیت کو مزید تقویت پہنچائی کہ خُدا نے اُسے غیر قوموں کے لئے خاص کام کی بُلاہٹ دی ہے۔ پولس کی تبدیل کے وقت ہی خُدا وند نے اُسے جتا دیا تھا کہ تو غیر قوموں کے لئے میرا رسُول ہو گا۔” کہ تُو اُن کی آنکھیں لائیں اور مجھ پر ایمان لانے کے باعث گناہوں کی معافی اور مُقدسوں میں شریک ہو کر میراث پائیں”۔ اعمال ۱۸:۲۶ ۔۔۔۔ وہ فرشتہ جو حننیاہ پر ظاہر ہُوا اپس نے فرمایا “مگر خُداوند نے اُس سے کہا کہ تُو جا کیوں کہ یہ قوموں بادشاہوں اور بنی اسرائیل پر میرا نام ظاہر کرنے کا میرا چُنا ہُوا وسیلہ ہے”۔ اعمال ۱۵:۹ “اور بعد میں پولُس خُود جب وہ یروشلیم کی ہیکل میں دُعا کر رہا تھا آسمانی فرشتہ سے ملا، جس نے اُسے حُکم دیا “جا میں تجھے غیر قوموں کے پاس دُور دُور بھیجوں گا”۔ اعمال ۲۱:۲۲ IKDS 148.1

یوں خُدا وند نے پولُس کو غیر قوموں کے پاس بطور مشنری بن کر جانے کا حُکم دے رکھا تھا۔ لہٰذا خُدا وند نے اُسے اس مشکل اور بھاری خدمت کو نبھانے کے لئے اپنی قُربت اور نزدیکی بخش دی۔ اور اُسے اپنے ساتھ مربوط کر کے آسمانی جلال اور خوبصورتی اور حشمت کا مکاشفہ عطا کیا۔ چنانچہ اُسے بھیدوں کو آشکارہ کرنے کی خدمت سونپی گئی۔ ” اب خُدا جو تُم کو میری خُوشخبری یعنی یسوع مسیح کی منادی کے موافق مضبوط کر سکتا ہے اس بھید کے مکاشفہ کے مطابق جو ازل سے پوشیدہ رہا”۔ رومیوں ۲۵:۱۶ ” چنانچہ اُس نے اپنی مرضی کے بھید کو اپنے اُس نیک ارادہ کے موافق ہم پر ظاہر کیا جسے اپنے آپ میں ٹھہرا لیا تھا”۔ افسیوں ۹:۱ ” جو اور زمانوں میں بنی آدم کو اس طرح معلوم نہ ہُوا تھا جس طرح اُس کے مقدس رسولوں اور نبیوں پر رُوح میں اب ظاہر ہو گیا ہے۔ یعنی یہ کہ مسیح یسوع میں غیر قومیں خُوشخبری کے وسیلہ سے میراث میں شریک اور بدن میں شامل اور وعدہ میں داخل ہیں۔ اور خُدا کے اپس فضل کی بخشش سے جو اُس کی قُدرت کی تاثیر سے مجھ پر ہُوا میں اس خوشخبری کا خادم بنا۔ مجھ پر جو سب مقدسوں میں چھوٹے سے چھوٹا ہوں یہ فضل ہوا کہ میں غیر قوموں کو مسیح کی بے قیاس دولت کی خوشخبری دوں۔ اور سب پر یہ بات روشن کروں کہ جو بھید ازل سے سب چیزوں کے پیدا کرنے والے خُدا میں پوشیدہ رہا اُس کا کیا انتظام ہے۔ تاکہ اب کلیسیا کے وسیلہ سے خُدا کی طرح طرح کی حکمت اُن حکومت والوں اور اختیار والوں کو جو آسمانی مقاموں میں ہیں معلوم ہو جائے۔ اس ازلی ارادہ کے مطابق جو اُس نے پیارے خُداوند یسوع مسیح میں کیا تھا”۔ افسیوں ۵:۳-۱۱ IKDS 148.2

خُداوند نے پولُس اور برنباس کو اُس برس بڑی برکت دی جب اُنہوں نے انطاکیہ میں ایمانداروں کے ساتھ قیام کیا ۔ ابھی تک ان دونوں کو رسمی طور پر انجیل کی منادی کے لئے مخصوص نہیں کیا گیا تھا۔ مگر اب وہ دونوں مسیحی تجربہ میں اس مقام پر پہنچ چکے تھے، جہاں خُدا وند مشکل اور بھاری ذمہ داری ان کے سپرد کرنے کو تھا۔ IKDS 149.1

“انطاکیہ میں اُس کلیسیا کے متعلق جو وہاں تھی کئی نبی اور معلم تھے یعنی برنباس اور شمعون جو کالا کہلاتا ہے اور لو کیس کُرینی اور مناہیم جو چوتھائی ملک کے حاکم پر ہیر و دیس کے ساتھ پلا تھا اور ساول۔ جب وہ خُداوند کی عبادت کر رہے اور روزے رکھ رہے تھے تو رُوح القدس نے کہا میرے لئے برنباس اور ساول کو اس کام کے واسطے مخصوص کر دو جس کے واسطے میں نے اُن کو بلایا ہے”۔ اعمال ۱:۱۳-۲ IKDS 149.2

رسولوں کو بُت پرست دُنیا میں بطور مشنری بھیجنے سے پہلے دُعا روزے اور ان پر ہاتھ رکھ کر خُدا کے لئے مخصوص کیا گیا۔ یوں اُنہیں کلیسیا کی طرف سے نہ صرف حق کی تعلیم دینے کا اختیار ملا بلکہ اُنہیں اب بپتسمہ دینے اور کلیسیا کو منظّم کرنے کا بھی اختیار مل گیا۔ IKDS 149.3

مسیحی کلیسیا اُس وقت ایک نہایت ہی اہم دور میں داخل ہو رہی تھی۔ غیر قوموں میں انجیل کی خوشخبری کا کام بڑی سرگرمی سے زور پکڑنے کو تھا اور اس کے نتیجہ میں کلیسیا کو رُوحوں کی فصل جمع کرنے سے بہت زیادہ تقویت ملنے کو تھی اور جن رسُولوں کی اس کام میں رہنمائی کرنے کے لئے تقرری ہونے والی تھی وہ شک و شبہات حسد اور تعصب کا شکار ہونے کو تھے۔ جُدائی کی دیوار کو توڑنے کی جو وہ تعلیم دینے کو تھے (افسیوں ۱۴:۲) جس نے یہودیوں اور کے غیر قوم والوں کے درمیان مدتوں سے جدائی حائل کر رکھی تھی اُسے سُن کر فطری طور پر اُنہیں بدعتی قرار دیا جانے کو تھا۔ اور مذہبی غیرت سے معمور یہودی اُنہیں پوچھنے کو تھے کہ اُنہیں یہ منادی کرنے کا اختیار کہاں سے ملا ہے۔ خُداوند خُدا نے اِن مشکلات کو پہلے سے دیکھ تھا جو اُس کے خادموں کو پیش آ سکتی تھیں۔ اور اُنہیں ان تمام الزامات سے محفوظ رکھنے کے لئے اُس نے کلیسیا کو مکاشفہ کے ذریعہ فرمایا کہ ان بھائیوں کو پبلک کی خدمت کے لئے علیحدہ کر دیا جائے۔ اُن کی مخصوصیت بھی اعلانیہ تھی کہ اُنہیں خُدا کی طرف سے مخصوص کر دیا گیا ہے تاکہ غیر قوموں میں انجیل کی خُوشخبری سُنائیں۔ IKDS 150.1

پولُس اور برنباس دونوں نے پیشتر ہی خُدا وند سے انجیل کا حُکم حاصل کر لیا تھا۔ اُن پر ہاتھ رکھنے کی رسم سے نہ تو اُنہیں کوئی نیا فضل ملا اور نہ ہی اُن میں کوئی نئی خوبی پیدا ہوئی۔ یہ تو صرف اُن کی تعیناتی کی پہچان اور اُس اختیار کا اعلان تحا جو اُنہیں کلیسیا کی طرف سے ملا تھا۔ یوں کلیسیا کی مہر خُدا کے کام پر ثبت کی گئی۔ IKDS 150.2

یہودیوں کے نزدیک یہ رسم اور طریقہ کار بڑا اہم اور معنی خیز تھا۔ جب یہودی باپ اپنے بچوں کو برکت دیتا تو وہ بڑے تقدس و تعظیم کے ساتھ اپنے ہاتھ اُن کے سروں پر رکھتا۔ جب کوئی جانور قُربانی کے لئے پیش کیا جاتا تو جسے کہانت کا اختیار ہوتا وہ قُربانی کے جانور کے سر پر اپنا ہاتھ رکھتا اور جب انطاکیہ میں کلیسیا کے خادموں نے اپنے ہاتھ پولُس اور برنباس پر رکھے تو اس عمل کے ذریعہ خُدا وند سے درخواست تھی کہ ان منتخب رسولوں پر اپنی رحمت نچھاور کر۔ اور اس کام پر اپنی برکت نازل کر جس کے لئے اُنہیں وقف کیا گیا ہے۔ IKDS 150.3

بعد میں مخصوصیت کے لئے ہاتھ رکھنے کی رسم کا ناجائز فائدہ اُٹھایا گیا۔ کیوں کہ اس پاک عمل کے ساتھ بہت سی غیر مصدقہ اور غیر اہم باتیں منسلک کر لی گئیں۔ مثال کے طور پر ہاتھ رکھتے ہی فوراً رُوح کی قُوت آ گئی جس نے مخصوص ہونے والے شخص کو خدمت کے تمام کاموں کے قابل بنا دیا۔ مگر ان دو بھائیوں کو خُدا کی خدمت کے لئے علیحدہ کرنے سے کوئی ایسا ریکارڈ نہیں ملتا جو یہ ظاہر کرتا ہو کہ ہاتھ رکھنے کے ساتھ ہی اُنہیں کوئی مزید خوبی مل گئی ہو۔ اُن کی خصوصیت کا بڑا سادہ احوال مندرج ہے اور یہ اُن کے مستقبل کے کام پر ہی دلالت کر تا ہے۔ IKDS 151.1

رُوح القدس کے ذریعہ وہ حالات جو پولُس اور برنباس کی مخصوصیت کے ساتھ مربوط ہوئے وہ ایک خاص کام کے لئے تھے اور یہ ظاہر کرتے تھے کہ خُدا وند خُدا اپنی کلیسیا میں منتخب ایجنسیوں کے ذریعہ ہی کام کرتا ہے۔ کئی برس پہلے جب پولُس رسُول پر خُود مسیح یسُوع کے ذریعہ اعلیٰ ارادے کا ظہور ہوا تو پولُس کو فوراً کلیسیا کے ممبران کے پاس پہنچا دیا گیا جو دمشق میں ابھی نئی نئی منظم ہوئی تھی۔ علاوہ ازیں پولُس کے تبدیل ہونے کے شخصی تجربہ کے بارے وہاں کی کلیسیا کو اندھیرے میں نہ رکھا گیا اور جبکہ الہٰی حُکم اُن کو مل گیا کہ پُوری تندہی سے انجیل کی خُوشخبری کو غیر قوموں میں پھیلایا جائے تو رُوح القدس نے ایک بار پھر بتایا کہ “یہ میرا چُنا ہُوا وسیلہ ہے” تاکہ غیر قوموں کا رسُول ہو۔ چنانچہ یہ رُوح القدس ہی تھا جس نے فرمایا۔ “میرے لئے برنباس اور ساول اس کام کے واسطے مخصوص کر دو جس کے واسطے میں نے اُن کو بُلایا ہے”۔ IKDS 151.2

خُداوند نے اس دھرتی پر اپنی کلیسیا کو روشنی کا سر چشمہ بنا رکھا ہے۔ اسی کے ذریعہ وہ اپنے مقاصد اور مرضی کو دُنیا پر ظاہر کرتا ہے۔ وہ اپنے کسی بھی خادم کو ایسا کوئی تجربہ نہیں بخشتا جو اس نے اپنی کلیسیا کو نہ دیا ہو۔ اور نہ ہی وہ ساری کلیسیا کو اندھیرے میں چھوڑ کر جو اُس کا بدن ہے کسی فرد واحد کو اپنی مرضی کا علم عطا کرتا ہے۔ وہ اپنے خادموں کو کلیسیا کے ساتھ ہی مربوُط رکھتا ہے تاکہ اُنہیں اپنے آپ پر کم اور اُن پر زیادہ اعتماد ہو جن کی خُدا اپنے کام کی بڑھتی کے لئے رہنمائی کر رہا ہے۔ IKDS 152.1

کلیسیا میں شُروع سے ہی ایسے لوگ موجود رہے ہیں جن کا میلان انفرادی خود مختاری میں رہا ہے۔ وہ یہ دیکھنے میں قاصر رہے ہیں کہ انسان کی خودسری ہی اس بات کی ذمہ دار ہے کہ وہ انسان کو اپنے آپ میں بہت زیادہ اعتماد رکھنے کی طرف مائل کرتی ہے۔ یوں انسان اپنے فیصلوں کو ہی دُرست سمجھتا ہے اور اپنے بھائیوں کی مشورت اور فیصلوں کا احترام نہیں کرتا۔ اور خاص طور پر یہ بات اُن لوگوں پر زیادہ صادق آتی ہے جنہیں خُدا نے اپنے لوگون کی قیادت کرنے کے لئے منتخب کر رکھا ہے۔ خدا وند نے اپنی کلیسیا میں خاص اختیار اور قُوت رکھی ہے اس کی حقارت کرنے میں کوئی بھی حق بجانب نہ ہو گا۔ کیونکہ جو شخص ایسا کرے گا وہ کلیسیا کی نہیں خُدا کی آواز کی حقارت کرے گا۔ IKDS 152.2

وہ جو اپنے ہی فیصلوں کو دوسروں کے فیصلوں سے افضل گردانتے ہیں بہت بڑے خطرے میں ہیں۔ یہ شیطان کا آزمودہ حربہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو اُن سے جُدا کر دے جو روشنی کا ذریعہ ہیں اور جن کے ذریعہ سے خُدا وند نےاپنے کام کو تعمیر کیا اور دور دراز پھیلایا ہے۔ جن کو خُدا نے سچائی کی ترویج کے لئے لیڈر شپ کی ذمہ داریاں دیکر تعینات کیا ہے، اُن کو نظر انداز کرنا یا اُن کی حقارت کرنے کا مطلب یہ ہُوا کہ ہم خُدا کے اُن وسائل کو رد کرتے ہیں جو خُدا نے اپنے لوگوں کی مدد، حوصلہ افزائی اور قُوت کے لئے مخصوص کر رکھے ہیں۔ خُدا کی خدمت میں کوئی بھی کار گزار اُن ذرائع کو نظر انداز کر کے یہ سوچنا شروع کر دے کہ اس کا نُور براہ راست خُدا سے آنا چاہئے، ایسا کرنے سے وہ اپنے آپ کو ایسے مقام پر رکھ دیتا ہے جہاں سے دشمن بہ آسانی اُسے دھوکا دے کر باہر پھینک دے گا۔ IKDS 152.3

خُدا وند نے اپنی حکمت میں ایک دوسرے کی قُربت کے ذریعہ کلیسیا کا انتظام کر رکھا ہے اور تمام ایمانداروں کو اُسے برقرار رکھنا چاہئے۔ یوں مسیحی، مسیحی کے ساتھ اور کلیسیا کلیسیا کے ساتھ متحد ہو گی۔ یوں بنی نوع انسان ذات الہٰی کے ساتھ تعاون کرنے کے قابل ہو سکیں گے۔ ہر ایک ذریعہ روح القدس کا معاون اور تمام ایماندار ایک اچھی منظم کوشش میں متحد ہو جائیں گے تاکہ دُنیا کو خُدا کے فضل کی خُوشخبری دے سکیں۔ IKDS 153.1

پولُس نے اپنی رسمی مخصوصیت کو اپنی خدمت کا نیا اور اہم موڑ سمجھ کر اُسی وقت سے ہی اپنی رسُولی خدمت کی شروعات کو مسیح کلیسیا کے ساتھ منسلک کیا۔ IKDS 153.2

جب انجیل کی روشنی بڑی تیزی سے انطاکیہ میں چمک رہی تھی اس وقت یروشلیم میں بھی اُن رسُولوں کے سبب جو یروشلیم میں رہ گئے تھے خُوشخبری کا اہم کام جاری تھا۔ ہر سال فسح کے وقت تمام دُنیا کے بہت سے یہودی یروشلیم کی ہیکل میں عبادت کے لئے آتے۔ ان میں سے بعض حضرات (جو یہاں زیارت کے لئے آتے) بُہت ایماندار اور پیشنگوئیوں کے سچے اور مخلص طالب علم ہوتے اور مسیح موعود کی آمد کے بڑے ذوق شوق سے منتظر تھے جو اسرائیل کی اُمید تھی۔ جب یروشلیم ان اجنبیوں سے بھر جاتا تو رسول بڑی دلیری سے مسیح کی مُنادی کرتے، گو وہ جانتے تھے کہ ایسا کرنے سے اُن کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ خُدا کے رُوح نے اُن کی خدمت پر اپنی مہر ثبت کر دی۔ بہت سے لوگ ایمان لے آئے اور جب یہ اجنبی واپس دُنیا کے مختلف حصوں میں اپنے اپنے علاقہ گئے تو سچائی کا بیج تمام طبقوں اور قوموں میں بکھیر دیا۔ IKDS 153.3

رسُولوں کی اس خدمت میں نمایاں نام پرس، یعقوب اور یُوحنا کا ہے جن کا یہ ایمان تھا کہ خُداوند نے اُنہیں اپنے ہی ہموطنوں میں یسوع کی منادی کرنے کے لئے چنا ہے۔ چنانچہ اُنہوں نے بڑی وفادار، ایمانداری اور حکمت سے خدمت کی، اور اُن باتوں کی گواہی دی جو اُنہوں نے سُنی اور دیکھی تھیں، اور خُدا کے معتبر کلام اور خصوصاً پیشنگوئیوں کی طرف توجہ کرنے کی اپیل کرتے۔ “پس اسرائیل کا سارا گھر نہ یقین جان لے کہ خُدا نے اُس یسُوع کو جسے تُم نے مصلُوب کیا خُداوند بھی کیا اور مسیح بھی”۔ اعمال ۳۶:۲ IKDS 154.1