ابتدائ کليسياء کے درخشاں ستارے
باب ۴۲ - بحری سفر اور جہاز کی تباہی
اعمال ۱۱:۲۷۔۴۴، ۱:۲۸۔۱۰
بالآخر پولُس روم کی طرف روانہ ہو گیا (لوقا لکھتا ہے)۔۔۔۔۔ جب جہاز پر انطاکیہ کو ہمارا جانا ٹھہر گیا تو اُنہوں نے پولُس اور بعض اور قیدیوں کو شہنشاہی پلٹن کے ایک صوبہ دار یُولیُس نام کے حوالہ کیا۔ اور ہم اور متیم کے ایک جہاز پر جو آسیہ کے کنارے کی بندرگاہوں میں جانے کو تھا سوار ہو کر روانہ ہوئے اور تھسلنیکے کا ارِستر خس مُکدنی ہمارے ساتھ تھا۔” IKDS 410.1
مسیحی دور کی پہلی صدی میں سمندری سفر صعوبتوں اور خطرات سے بھرپور ہوتا تھا۔ ملاح زیادیہ تر سورج اور ستاروں کی مدد سے اپنی منزل کا تعین کرتے تھے۔ اور اگر یہ نمودار نہ ہوتے اور طوفان کے بھی آثار نظر آرہے ہوتے تو جہاز کے مالک کھلے سمندر میں سفر کرتے ہوئے خوفزدہ اور پریشان ہو جاتے۔ سال کا کچھ حصہ بحری سفر کے لئے تقریباً ناممکن ہُوا کرتا تھا۔ IKDS 410.2
اب زنجیروں سے جکڑے ہوئے پولُس رسُول کو اٹلی کی طرف مشکل اور طویل سفر کرتے ہوئے ان مشکلات کو جھیلنا تھا۔ اس کے ساتھ لوقا اور ارسترخس کو جانے کی اجازت مل گئی تھی۔ یہ ہمیں اس کے اس خط سے معلوم ہوتا ہے جو بعد میں رسُول نے کلسیوں کی کلیسا کو لکھا (کلسیوں ۱۰:۴) یہاں یہ واضح کرتے چلیں کہ ارسترخس رضا کارانہ پولُس کے ہمراہ گیا تاکہ اس کی مُشکلات میں اُس کی خدمت کر سکے۔ IKDS 410.3
سفر کا آغاز بہت اچھا ہوا۔ دُوسرے دن جہاز صیدا میں جا ٹھہرا اور یولیُس نے پولُس پر مہربانی کر کے دوستوں کے پاس جاے کی اجازت دی تاکہ اُس کی خاطر داری ہو۔ چُونکہ پولُس خاصا لاغر ہو چُکا تھا اس لئے اس مدد کے لئے رسُول یولیُس کا بڑا احسان مند ہوا۔ IKDS 411.1
صیدا سے روانہ تو ہوگئے مگر ہوا مخالف تھی اس لئے سفر آہستہ آہستہ کٹا۔ مورہ میں جو لوکیہ کا صوبہ تھا وہاں اُترے۔ وہاں صوبیدار کو اسکندریہ کا ایک جہاز طالیہ جاتا ہوا ملا۔ پس ہمکو اس میں بٹھا دیا مگر ہوا مخالف تھی اور جہاز کا آگے بڑھنا ابھی تک بدستور مشکل تھا۔ (لوقا لکھتا ہے) “ہم بہت دنوں تک آہستہ آہستہ چل کر جب مشکل سے کندس کے سامنے پہنچے تو اس لئے کہ ہوا ہمکو آگے بڑھنے نہیں دیتی تھی سلمونے کے سامنے سے ہو کر کریتے کی آڑ میں چلے۔ اور بمشکل اس کے کنارے کنارے چل کر حسین بندر نام ایک مقام میں پہنچے جس سے لسیہ شہر نزدیک تھا۔ ” IKDS 411.2
حسین بندر میں اُنہیں مجبوراً موافق ہوا کے انتظار میں کچھ دیر ٹھہرنا پڑا۔ اور جاڑا بہت قریب تھا “جہاز کا سفر اس لئے خطرناک ہو گیا” جہاز کے انچارج حضرات کو جاڑے سے پہلے منزل مقصود پر پہنچنے کی اُمید نہ رہی، اور اب سوچنا یہ تھا کہ کیا حسین بندر میں ہی ٹھہریں یا جاڑا گذارنے کے لئے اس سے کہیں بہتر جگہ چلے جائیں جو ہمارے موافق ہو۔ کیونکہ اگر حسین بندر میں ٹھہرتے تو ایک سال تک سمندری سفر نا ممکن تھا۔ IKDS 411.3
اس خیال پر بڑی سنجیدگی سے غوروخوض کیا گیا۔۔۔۔ اور پھر صوبیدار نے پولُس سے بھی مشورہ لیا کیونکہ صوبیدار اور دوسرے سپاہی اور سب ملاح اُس کی بڑی عزت کرتے تھے۔ چنانچہ پولُس نے بغیر ہچکچاہٹ کے مشورہ دیا کہ ہمیں یہیں ٹھہرنا چاہئے جہاں ہم ہیں۔ انہیں یہ کہہ کر نصیحت کی “اے صاحبو! مجھے معلوم ہوتا ہے کہ اس سفر میں تکلیف اور بہت نقصان ہو گا، نہ صرف مال اور جہاز کا بلکہ ہماری جانوں کا بھی۔” مگر عملےکے زیادہ تر لوگ اس کی نصیحت ماننے پر رضامند نہ ہوئے کیوں کہ حسین بندر میں جہاں وہ ٹھہرے ہوئے تھے “جاڑوں میں رہنے کے لئے اچھا نہ تھا اس لئے اکثر لوگون کی صلاح ٹھہری کہ وہاں سے روانہ ہوں اور اگر ہو سکے تو فینکس مینں پہنچ کر جاڑا کاٹیں۔ وہ کریتے کی ایک بندرگاہ ہے جس کا رُخ شمال مشرق اور جنوب مشرق کا ہے۔ IKDS 411.4
چنانچہ صوبیدار نے اکثریت کی بات ماننے کا فیصلہ کیا “جب کچھ دکھنا ہوا چلنے لگی تو انہوں نے یہ سمجھ کر کہ ہمارا مطلب حاصل ہو گیا لنگڑا اٹھایا اور کریتے کے کنارے کے قریب قریب چلے۔ لیکن تھوری دیر بعد ایک بڑی طوفانی ہوا جہاز پر آئی۔ اور جب جہاز ہوا کے قابو میں آ گیا اور اس کا سامنا نہ کر سکا تو ہم نے لاچار ہو کر اس کو بہنے دیا۔ اور کودہ نام ایک چھوٹے جزیرہ کی آڑ میں بہتے بہتے ہم بڑی مشکل سے ڈونگی کو قابو میں لائے۔ لائف بوٹ جان بچانے والی کشتی کا استعمال جہاز کے ڈوب جانے کی صورت میں تھا ایسے معلوم ہوتا تھا کہ چند لمحوں میں جہاز پاش پاش ہو جائے گا۔ چنانچہ ان کا پہلا کام یہ تھا کہ اس کشتی کو جہاز کے عرشہ پر لائیں۔ IKDS 412.1
چنانچہ جہاز کو بچانے اور طوفان کا مقابلہ کرنے کے لئے تمام حفاظتی تدابیر کر لی گئیں۔ کودہ نامی چھوٹا جزیرہ زیادہ دیر تک حفاظت نہ کر سکا لہٰذا بہت جلد دوبارہ تُند و تیز طُوفان کی لپیٹ میں آ گئے۔ ساری رات ہم طوفان کی زد میں رہے اور باوجود تمام حفاظتی تدابیر کے جہاز میں سوراخ ہو گئے اور وہ بہنا شُروع ہو گیا۔ “دوسرے دن جہاز کا سازوسامان اتار لیا”۔ IKDS 412.2
رات پڑ گئی مگر آندھی نہ رُکی۔ طوفان زدہ جہاز ٹوٹے پھوٹے مستول اور بادبانوں کے ساتھ آندھی سے ادھر ادھر ہچکولے کھاتا پھرا۔ ایسے لگتا تھا جیسے جہاز طوفان کے ہاتھوں پاش پاش ہو جائے گا اور دم بھر میں مرُلیا بج جائے گی۔ سوراخ بڑی تیزی سے وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا تھا اور ملاح اور مسافر دونوں پانی کو باہر بڑی سُرعت سے نکال رہے تھے۔ ایک منٹ کے لئے بھی کسی نے آرام نہ کیا “تیسرے دن (لوقا لکھتا ہے) انہوں نے اپنے ہی ہاتھوں سے جہاز کے آلات و اسباب بھی پھینک دئیے۔ اور جب بہت دنوں تک سُورج نظر نہ آیا نہ تارے، اور شدت کی آندھی چل رہی تھی، تو ہمیں بچنے کی بالکل اُمید نہ رہی۔ IKDS 412.3
چودہ دن تک وہ چاند، سورج اور ستاروں کے بغیر آسمان تلے ہچکولے کھاتے رہے۔ رسُول کے پاس گو اُسے خود بھی جسمانی تکالیف کا سامنا تھا اس تاریک وقت میں اُمید کا کلام تھا جو ہر ہنگامی صورت میں باعث مدد بنتا ہے۔ اُس نے ایمان سے قادرِ مُطلق خُدا وند کا ہاتھ تھام لیا اور اس کا دل اُس کے ساتھ پوری طرح جُڑ ہوا تھا۔ اُسے اپنی جان کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ روم میں گواہی دینے کے لئے خُدا اُسے ضرور بچائے گا۔ مگر اُس کا دل اُن بے بس رُوحوں کے لئے بھر آیا جو گنہگار تھیں اور مرنے کے لئے تیار نہ تھیں۔ جب اُس نے خُداوند سے اُن کی جانیں بچانے کی دُعا کی تو اُسے معلوم ہو گیا کہ خُدا نے اُس کی دُعا کو سُن لیا ہے۔ IKDS 413.1
اور جب بہت فاقہ کر چکے پولُس نے ان کے بیچ میں کھڑے ہو کر کہا “اے صاحبو! لازم تھا کہ تُم میری بات مان کر کریتے سے روانہ نہ ہوتے اور یہ تکلیف اور نقصان نہ اُٹھاتے ، مگر اب میں تمکو نصیحت کرتا ہوں کہ خاطر جمع رکھو کیوں کہ تُم میں سے کسی کی جان کا نقصان نہ ہوگا مگر جہاز کا۔ کیونکہ خُدا جس کا میں ہوں اور جسکی عبادت بھی کرتا ہوں اس کے فرشتہ نے اسی رات کو میرے پاس آکر کہا اے پولس! نہ ڈر ضرور ہے کہ تُو قیصر کے سامنے حاضر ہو اور دیکھ جتنے لوگ تیرے ساتھ جہاز میں سوار ہیں اُن سب کی خُدا نے تیری خاطر جان بخشی ہے۔ اس لئے اے صاحبو! خاطر جمع رکھو کیونکہ میں خُدا کا یقین کرتا ہوں کہ جیسا مجھ سے کہا گیا ہے ویسا ہی ہو گا۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ ہم کسی ٹاپُو میں جاپڑیں”۔ IKDS 413.2
اس کلام سے سب کے دل میں اُمید کی کرن پیدا ہو گئی۔ مسافر اور جہاز کا عملہ مایوسی اور بے دلی کی کیفیت سے باہر نکل آئے۔ مگر ابھی بہت کچھ کرنے کو تھا۔ جو کچھ انسانی بس میں تھا وہ کرکے اس تباہی سے بچنا لازم تھا۔ سیاہ پھُنکارتی لہروں میں ہچکولے کھانے کی یہ چودھویں رات تھی۔ . IKDS 413.3
“جب چودھویں رات ہوئی اور ہم بحر ادریہ میں ٹکراتے پھرتے تھے تو آدھی رات کے قریب ملاحوں نے اٹکل سے معلُوم کیا کہ کسی ملک کے نزدیک پہنچ گئے۔ اور پانی کی تھاہ لے کر بیس (۲۰) پُرسہ پایا اور تھوڑا آگے بڑھ کر اور پھر تھاہ لے کر پندرہ پُرسہ پایا۔ اور اس ڈر سے کہ مُبادہ چٹانوں پر جا پڑیں جہاز کے پیچھے سے چار لنگر ڈالے اور صبح ہونے کے لئے دُعا کرتے رہے”۔ IKDS 414.1
دن نکلنے پر طُوفانی ساحل دُھند لے دُھندلے نظر آنے لگے مگر یہ معلوم نہ ہو سکا کہ یہ کس سر زمیں کا حصہ ہیں۔ چنانچہ بُت پرست ملاحوں نے دل چھوڑ دیا اور مایُوس ہو گئے۔ “ملاحوں نے چاہا کہ جہاز سے بھاگ جائیں” اور اس بہانے سے کہ گلی سے لنگر ڈالیں ڈونگی کو سمندر میں اُتارا۔ وہ بھاگنے کا انتظام کر چکے تھے جب پولُس نے اُن کی اس کمینہ حرکت کو بھانپا۔ چنانچہ اُس نے اُن کے ناپاک عزائم سے صوبیدار کو مطلع کر دیا۔ اس پر سپاہیوں نے ڈونگی کی رسیاں کاٹ کر اُسے چھوڑ دیا۔ IKDS 414.2
مشکل وقت ابھی آنے والا تھا۔ رسُول نے دوبارہ اُن سے اُمید افزا کلام کیا۔ اور تمام ملاحوں، مسافروں سے کھانا کھانے کی التماس کی۔ “اور جب دن نکلنے کو ہوا تو پولس نے سب کی منت کی کہ کھانا کھالو اور کہا کہ تم کو انتظار کرتے کرتے اور فاقہ کھینچتے کھینچتے آج چودہ دن ہو گئے اور تُم نے کچھ نہیں کھایا۔ اس لئے تمہاری منت کرتا ہوں کہ کھانا کھالو کیوں کہ اس پر تمہاری بہتری موقوف ہے اور تُم میں سے کسی کے سر کا ایک بال بیکا نہ ہو گا۔ . IKDS 414.3
یہ کہہ کر اُس نے روٹی لی اور اُن سب کے سامنے خُدا کا شکر کیا اور توڑ کھانے لگا۔ پھر اُن سب کی خاطر جمع ہوئی اور آپ بھی کھانا لگے اور ہم سب مل کر جہاز میں دو سو چھہتر (۷۶) آدمی تھے۔ جب وہ کھا کر سیر ہوئے تو کہیوں کو سمندر میں پھینک کر جہاز و ہلکا کرنے لگے”۔ IKDS 415.1
دن پوری طرح نکل آیا لیکن انہیں کوئی ایسی نشانی نہ ملی جس کی مدد سے وہ اپنے حدود اربعہ سے واقف ہو سکتے۔ “جب دن نکل آیا تو انہوں نے اس ملک کو نہ پہنچانا مگر ایک کھاڑی دیکھی جس کا کنارا صاف تھا اور صلاح کہ اگر ہو سکے تو جہاز کو اُس پر چڑ ھا لیں۔ پس لنگر کھول کر سمندر میں چھوڑ دیئے اور پتواروں کی بھی رسیاں کھول دیں اور اگلا پال ہوا کے رُخ پر چڑھا کر اُس کنارے کی طرف چلے۔ لیکن ایک ایسی جگہ جا پڑے جس کی دونوں طرف سمندر کا زور تھا اور جہاز زمین پر ٹک گیا۔ پس گلہی تو دھکا کھا کر پھنس گئی دُنبالہ لہروں کے زور سے ٹُوٹنے لگا۔ ” IKDS 415.2
پولُس اور دوسرے قیدی ڈرے کیونکہ جو انہیں اب نظر آرہا تھا وہ جہاز کے ٹُو ٹنے سے زیادہ ہولناک تھا۔ سپاہیوں نے دیکھا چونکہ اب ہر ایک خشکی پر پہنچنے کی کوشش میں ہے چنانچہ ہم قیدیوں کو بھاگنے سے نہ روک سکیں گے۔ کیونکہ ہر ایک کو اپنی ہی جان بچانے کی فکر لاحق تھی۔ اور اگر اس دوران کوئی قیدی کم ہو گیا تو جو اُن کی نگرانی کرنے کے ذمہ دار ہیں اُن کی اپنی جان خطرے میں پڑ جائے گی۔ چنانچہ سپاہیوں نے چاہا کہ تمام قیدیوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا جائے۔ رومی قانون اس ظالم پالیسی کی اجازت دیتا تھا۔ اس تجویز پر شاید فوراً عمل کا حُکم دے دیا جاتا۔ لیکن صوبیدار جُو لیس جانتا تھا کہ پولُس ہماری جانو کو اب تک محفوظ رکھنے کا وسیلہ بنا رہا ہے، اور وہ اس بات کا قائل تھا کہ خُدا اُس کے ہمراہ ہے۔ اس لئے وہ پولُس کو کوئی نقصان پہنچانا نہیں چاہتا تھا۔ اس خیال کے تحت اُس نے حُکم دیا “لیکن صوبہ دار نے پولُس کو بچانے کی غرض سے ان کو اس ارادہ سے باز رکھا اور حُکم دیا کہ جو تیر سکتے ہیں پہلے کُود کر کنارے پر چلے جائیں اور باقی لوگ بعض تختوں پر اور بعض جہاز کی اور چیزوں کے سہارے سے چلے جائیں اور اسی طرح سب کے سب خشکی پر سلامت پہنچ گئے” اور جب حاضری کے لئے نام پُکارے گئے تو ایک شخص بھی کم نہ نکلا۔ IKDS 415.3
برباد شُدہ جہاز کے مسافروں کے ساتھ ملیتے کے اجنبی بڑی مہربان سے پیش آئے۔ “انہوں نے آگ جلائی” لوقا لکھتا ہے ” اُن اجنبیوں نے ہم پر خاص مہربانی کی کیوں کہ مینہ کی جھڑی اور جاڑے کے سبب سے اُنہوں نے آگ جلا کر ہم سب کی خاطر کی۔ جب پولُس نے لکڑیوں کا گٹھا جمع کر کے آگ میں ڈالا تو ایک سانپ گرمی پا کر نکلا اور اُس کے ہاتھ پر لپٹ گیا۔ جس وقت اُن اجنبیوں نے وہ کیڑا اس کےہاتھ سے لٹکا ہوا دیکھا تو ایک دوسرے سے کہنےلگے کہ ب شک یہ آدمی خُونی ہے۔ اگرچہ سمندر سے بچ گیا تو بھی عدل اُسے جینے نہیں دیتا۔ پس اُس نے کیڑے کو آگ میں جھٹک دیا اور اُسے کچھ ضرر نہ پہنچا۔ مگر وہ منتظر تھے کہ اُس کا بدن سُوج جائے گا یا یہ مر کر یکا یک گر پڑے گا۔ لیکن جب دیر تک انتظار کیا اور دیکھا کہ اُس کو کچھ ضرر نہ پہنچا تو خیال کر کے کہا کہ یہ توکوئی دیوتا ہے”۔ IKDS 416.1
جہاز کے تمام مسافروں نے ملیتے میں کم و بیش تین ماہ قیام کیا۔ پولُس اور اس کے ہمخدمت بھائیوں نے کئی بار وہاں انجیل کی منادی کی۔ خُدا وند نے اُن کے ذریعہ وہاں بڑے بڑے عجائب دکھائے۔ پولُس کی وجہ سے جہاز پر کے تمام مسافروں کی بڑی خاطر تواضع ہوئی، تمام حاجتیں رفع کی گئیں اور جب ملیتے سے روانہ ہوئے تو جہاز پر جن جن چیزوں کی اُنہیں ضرورت تھی ان اجنبیوں نے مہیا کر دیں۔ وہاں کے نمایاں واقعات کا ذکر کرتے ہوئے لوقا لکھتا ہے۔ IKDS 416.2
“وہاں سے قریب پُبلیُس نام اُس ٹاپو کے سردار کی ملک تھی۔ اس نے گھر لے جا کر تین دن تک بڑی مہربانی سے ہماری مہمان کی۔ اور ایسا ہوا کہ پُبلیُس کا باپ بُخار اور پیچس کی وجہ سے بیمار پڑا تھا۔ پولُس نے اپس کے پاس جا کر دُعا کی اور اس پر ہاتھ رکھ کر شفا دی۔ جب ایسا ہوا تو باقی لوگ جو اُس ٹاپو میں بیمار تھے آئے اور اچھے کئے گئے۔ اور اُنہوں نے ہماری بڑی عزت کی اور چلتے وقت جو کچھ ہمیں درکار تھا جہاز پر رکھ دیا”۔ IKDS 417.1