ابتدائ کليسياء کے درخشاں ستارے
ابتدائ کليسياء کے درخشاں ستارے
باب ۱ - اپنی کلیسیا کے لئے خُدا کی غرض و غائت
بنی نوع انسان کے لئے کلیسیا خُدا کا مقرر کردہ نجات بخش ادارہ ہے۔ اسے خدمت کرنے کے لئے منظم کیا گیا ہے، اور دُنیا بھر میں انجیل کی تشہیر اس کا کلی مقصد ہے۔ ابتداء سے ہی خدا وند کی یہ تجویز اور منشا تھا کہ اپنی کلیسیا کے ذریعے خُداوند کا قادر مطلق ہونا دُنیا پر آشکارہ کیا جائے اور دُنیا کلیسیا کے ذریعہ خداوند کی کاملیّت کو جان سکے۔ کلیسیا کے ممبران جن کو اُس نے تاریکی سے باہر نکال کر اپنے حیرت انگیز نُور میں بُلایا ہے اُس کے جلال کو ظاہر کریں ۔ کلیسیا خُداوند یسوع مسیح کے فضل کی دولت سے مالا مال ہے۔ کلیسیا اس دولت کو دنیا کے ساتھ بانٹے گی۔ حتٰی کہ ” کلیسیاکے وسیلہ سے خُدا کی طرح طرح کی حکمت اُن حکومت والوں اور اختیار والوں کو جو آسمانی مقاموں میں ہیں معلوم ہو جائے گی”۔ (افسیوں ۱۰:۳) IKDS 1.1
کلام مقدس میں کلیسیا سے وابستہ بے شمار اور شاندار وعدے مرقوم ہیں۔ IKDS 1.2
“میرا گھر سب لوگوں کی عبادت گاہ کہلائے گا” ۔ ( یسعیاہ ۷:۵۶ ) IKDS 1.3
“اور میں اُن کو اور اُن جگہوں کو جو میرے پہاڑ کے آس پاس ہیں برکت کا باعث بناوں گا اور میں بروقت مینہ برساوں گا۔ برکت کی بارش ہو گی”۔ (حزقی ایل ۲۶:۳۴) IKDS 1.4
“اور میں اُن کے لئے ایک نامور پودا برپا کروں گا اور وہ پھر کبھی اپنے ملک میں قحط سے ہلاک نہ ہوں گے اور آگے کو وقموں کا طعنہ نہ اُٹھائیں گے اور وہ جانیں گے کہ میں خُدا وند اُن کا خُدا اُن کے ساتھ ہوں اور وہ یعنی بنی اسرائیل میرے لوگ ہیں خدا وند خدا فرماتا ہے۔ اور تم اے میر بھیڑو میری چراگاہ کی بھیڑو انسان ہواور میں تمہارا خدا ہوں۔ خدا وند خدا فرماتا ہے” (حزقی ایل ۲۹:۳۴-۳۱) IKDS 1.5
خدا وند فرماتا ہے تم میرے گواہ ہو اور میرا خادم بھی جسے میں نے برگزیدہ کیا تا کہ تم جانو اور مجھ پر ایمان لاو اور سمجھو کہ میں وہی ہوں۔ مجھ سے پہلے کوئی خدا نہ ہوا اور میرے بعد بھی کوئی نہ ہوگا۔ میں ہی یہواہ ہوں اور میرے سوا کوئی بچانے والا نہیں۔ میں نے اعلان کیا اور میں نے نجات بخشی اور میں نے ہی ظاہر کیا جب تم میں کوئی اجنبی معبود نہ تھا۔ سو تم میرے گواہ ہو خداوند فرماتا ہے کہ میں ہی خدا ہوں”۔ (یسعیاہ ۱۰:۴۳-۱۲) IKDS 2.1
“میں خداوند نے تجھے صداقت سے بلایا۔ میں ہی تیرا ہاتھ پکڑوں گا اور حفاظت کروں گا اور لوگوں کے عہد اور قوموں کے نُور کے لئے تجھے دوں گا کہ تُو اندھوں کی آنکھیں کھولے اور اسیروں کو قید سے نکالے اور اُن کو جو اندھیرے میں بیٹھے ہیں قید خانہ سے چھڑائے”۔ (یسعیاہ ۶:۴۲:۷) IKDS 2.2
خدا وند یوں فرماتا ہے کہ میں نے قبولیت کے وقت تیری سنی اور نجات کے دن تیری مدد کی اور میں تیری حفاظت کروں گا اور لوگوں کے لئے تجھے عہد ٹھہراوں گا تاکہ ملک کو بحال کرے اور ویران میراث وارثوں کو دے۔ تاکہ تُو قیدیوں کو کہے کہ نکل چلو اور اُن کو جو اندھیرے میں ہیں کہ اپنے آپ کو دکھلاو۔ وہ راستوں میں چریں گے اور سب ننگے ٹیلے اُن کی چراگاہیں ہوں گی۔ وہ نہ بھُوکے ہوں گے نہ پیاسے اور نہ گرمی اور دُھوپ سے اُن کو ضررّ پہنچے گا کیونکہ وہ جس کی رحمت اُن پر ہے اُن کا رہنما ہو گا اور پانی کے سوتوں کی طرف اُن کی رہبری کرے گا اور میں اپنے سارے کوہستان کو ایک راستہ بنا دوں گا اور میری شاہراہیں اُونچی کی جائیں گی”۔ (یسعیاہ ۸:۴۹:۱۱) IKDS 2.3
“اے آسمانو گاو! اے زمین شادمان ہو! اے پہاڑ نغمہ پردازی کرو! کیوں کرخدا وند نے اپنے لوگوں کو تسلی بخشی ہے اور اپنے رنجو روں پر رحم فرمائے گا۔ لیکن صیون کہتی ہے یہواہ نے مجھے ترک کیا ہے اور خُداوند مجھے بُھول گیا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی ماں اپنے شیر خوار بچے کو بھول جائے اور اپنے رحم کے فرزند پر ترس نہ کھائے؟ ہاں وہ شائد بھول جائے پر میں تجھے نہ بھولوں گا۔ دیکھ میں نے تیری صورت اپنی ہتھیلی پر کھود رکھی ہے اور تیری شہر پناہ ہمیشہ میرے سامنے ہے”۔ (یسعیاہ ۱۳:۴۹-۱۶) IKDS 2.4
کلیسیا خُدا وند کا قلعہ اور شہر پناہ ہے جسے اُس ے اس باغی اور سازشی دنیا میں قائم کر رکھا ہے۔ کلیسیا میں کسی طرح کی گُمراہی اُس کے خلاف سازش ہے جس نے آل آدم کو اپنے اکلوتے بیٹے کے خون سے خرید رکھا ہے۔ روز آفرنیش سے ہی وفادار اور ایماندار خواتین و حضرات نے زمین پر کلیسیا کو قائم و دائم اور رواں دواں رکھا ہے۔ ہر زمانہ میں خدا وند خدا نے اپنے نگہبان پیدا کئے جو اپنے زمانے کی نسلوں کو بڑی وفاداری سے گواہی دیتے رہے۔ ان محافظوں نے آگاہی اور تنبیہ کا پیغام بڑی وفاداری سے پیش کیا۔ اور جب اُنہیں خالق خدا وند نے ہتھیار رکھ دینے کے لئے حکم کیا تو اُن کے چھوڑے ہوئے کام کو پایہء تکمیل تک پہنچانے کے لئے دوسرے وفادار خادم اُن کے ہتھیاروں سے لیس ہو گئے۔ پھر خدا نے اُن گواہوں کے ساتھ اپنا عہد باندھ لیا۔ یوں زمینی کلیسیا آسمانی کلیسیا کے ساتھ متحد ہو گئی۔ اُس نے اپنے پاک فرشتگان کو کلیسیا کی خدمت کے لئے بھیج دیا اور دوزخ کے دروازے اُس کے لوگوں پر غالب نہ آ سکے۔ IKDS 3.1
صدیوں کی ایذا رسانی، کشمکش اور تاریکی کے دوران بھی خدا وند خدا نے اپنی کلیسیا کو قائم رکھا ہے۔ کلیسیا پر کوئی ایسی مصیبت نہیں آئی جس کے لئے خداوند نے اُسے پہلے سے تیار نہ کیا ہو اور نہ ہی کوئی ابھی تک ایسی قوت نمودار ہوئی ہے جسے ہمارا خدا وند پہلے سے نہ جانتا تھا۔ بلکہ سب کچھ اُسی طرح ہوُا جیسے اُس نے پہلے سے (بطور پیشنگوئی) بتا رکھا تھا۔ اُس نے کبھی بھی اپنی کلیسیا کو ترک نہیں کیا۔ جو کچھ مستقبل قریب میں واقع ہونے کو تھا وہ اُس نے پیشتر ہی اپنے نبیوں کو الہام کے ذریعہ سے بتا دیا تھا۔ اب بھی جو کچھ اُس نے تجویز کیا ہے اُسی کے مطابق پایہء تکمیل کو پہنچے گا۔ اُس کی شریعت اپس کے تخت کے ساتھ منسلک ہے اور بدی کی کوئی قوت اُسے برباد نہیں کر سکتی۔ صداقت کو خدا وند خدا کی پُشت پناہی حاصل ہے اور وہ ہر طرح کی مخالفت پر فتح پائے گی۔ IKDS 3.2
رُوحانی تاریکی کے زمانوں میں خدا کی کلیسیا اُس شہر کی مانند نمایاں اور درخشا ں رہی جو پہاڑ پر بسا۔ زمانہ بہ زمانہ ہر آنے والی نسل کے ذریعہ دُنیا کے کونے کونے تک آسمانی پاکیزہ تعلیم پہنچائی گئی۔ گو کلیسیا کمزور و ناتواں اور ناقص ہے پھر بھی خدا وند اس کی بڑی قدر کرتا ہے۔ کلیسیا اُس کے فضل کا ذریعہ ہے۔ جس کے وسیلہ وہ دلوں کو تبدیل کرنے کے لئے اپنی قوت اور قدرت ظاہر کرکے خوشی محسوس کرتا ہے۔ IKDS 4.1
پھر اُس نے کہا کہ ہم خدا کی بادشاہی کو کس سے تشبیہ دیں اور کس تمثیل میں اُسے بیان کریں”۔ (مرقس ۳۰:۴) خُداوند یسوع مسیح آسمان کی بادشاہی کو دنیا کی سلطنتوں سے تشبیہ نہیں دے سکتا تھا کیوں کہ ان دونوں میں کوئی مشابہت نہیں اور نہ ہی کوئی قدر مشترک ہے۔ سوسائٹی میں اُس نے کوئی ایسی چیز نہ پائی جس کے ساتھ وہ آسمانی بادشاہی کو تشبیہ دے سکتا۔ زمینی بادشاہیاں تو جسمانی قوت سے حکمرانی کرتی ہیں۔ لیکن مسیح کی بادشاہت سے ہر ایک جسمانی ہتھیار اور تباہی پھیلانے والا اوزار نا پید ہوگا۔ (ایسے اسلحے کا خدا کی بادشاہی میں نام و نشاننہ ہوگا)۔ IKDS 4.2
خدا کی بادشاہی آدمیت کی فلاح و بہبود کے لئے ہو گی اور اُس کی عزت نفس کو بڑھائے گی۔ خدا کی کلیسیا پاکیزہ زندگی کا دربار ہے جس میں روح القدس کی وساطت سے طرح طرح کی نعمتیں موجود ہیں۔ کلیسیا کے ممبران کو ان لوگوں کی خوشی سے خوشی و مسرت پانا ہے جن کی وہ مدد کرتے ہیں اور جن کے لئے وہ باعث برکت بنے ہوئے ہیں۔ IKDS 4.3
وہ کام کتنا ہی حیرت انگیز اور شاندار ہے جو ہمارے خداوند نے کلیسیا کے ذریعہ مکمل کرنے کے لئے ارادہ کر رکھا ہے تاکہ اُس کا نام جلال پائے۔ اس کام کی تصویر کی ایک جھلک حزقی ایل کی رویا میں یوں ملتی ہے “یہ پانی مشرقی علاقہ کی طرف بہتا ہے اور میدان میں سے ہو کر سمندر میں جا ملتا ہے اور سمندر میں ملتے ہی اُس کے پانی کو شیریں کر دے گا اور یون ہو گا کہ جہاں کہیں یہ دریا پہنچے گا ہر ایک چلنے پھرنے والا جاندار زندہ رہے گا اور مچھلیوں کی بڑی کثر ت ہو گی کیوں کہ یہ پانی وہاں پہنچا اور وہ شیر ین ہو گیا ۔ پس جہاں کہیں یہ دریا پہنچے گا زندگی بخشے گا۔ اور دریا کے قریب اُس کے دونوں کناروں پر ہر قسم کے میوہ دار درخت اُگیں گے جن کے پتے کبھی نہ مرجھائیں گے اور جن کے میوے کبھی موقوف نہ ہوں گے۔ وہ ہر مہینے نئے میوے لائیں گے کیونکہ اُن کا پانی مقدس میں میں سے جاری ہے اُن کے میوے کھانے کے لئے اور اُن کے پتے دوا کے لئے ہوں گے”۔ (حزقی ایل ۸:۴۷-۱۲) IKDS 4.4
روز اول سے ہی خدا وند کا منشا تھا کہ اُس کے لوگوں کے ذریعہ دُنیا برکت پائے۔ قدیم مصری قوم کے لئے خدا وند نے یوسف کو زندگی کا سر چشمہ بنایا۔ یوسف کی دیانتداری اور ایمانداری کے سبب تمام قوم زندہ اور محفوظ رہی۔ دانی ایل کے ذریعہ بابل کے تمام دانشور موت کے منہ میں جانے سے بچ گئے۔ یہ رہائیاں ٹحوس اسباق ہیں جو یہ ظاہر کرتے تھے کہ یہ رُوحانی برکات جو دُنیا کو ملیں وہ اُس خدا کی بدولت ملیں جس کی عبادت یوسف اور دانی ایل کرتے تھے۔ ہر ایک جس کے دل میں یسوع مسیح بسا ہے، ہر ایک جو اُس کی محبت دُنیا پر ظاہر کرے گا وہ خدا کے ساتھ مل کر بنی نوع انسان کے لئے باعث برکت ہو گا۔ جب ایسے اصحاب خدا کا فضل دوسروں کو دینے کے لئے خدا سے حاصل کرتے ہیں اُس سے رُوحانی چشمے جاری ہو جاتے ہیں۔ IKDS 5.1
خداوند خدا نے بنی اسرائیل کو چُن لیا تاکہ وہ بنی نوع انسان پر اُس کی سیرت آشکارہ کرے۔ اُس کی دلی خواہش تھی کہ اُس کے لوگ دُنیا کے لئے نجات کا چشمہ بنیں۔ خداوند نے اپنی شریعت اُن کے ہاتھ میں دے دی تاکہ وہ اُس کی مرضی کیو دنیا پر ظاہر کریں۔ بنی اسرائیل کے ابتدائی ایام میں دُنیا کی قومیں بدکاری کے سبب خدا کو بالکل بھول گئیں۔ ایک وقت تھا جب یہ قومیں اُسے جانتی تھیں۔۔۔۔۔ “اسلئے کہ اگرچہ اُنہوں نے خدا کو جان تو لیا مگر اُس کی خدائی کے لائق اُس کی تمجید اور شُکر گزاری نہ کی بلکہ باطل خیالات میں پڑ گئے اور اُن کے بے سمجھ دلوں پر اندھیرا چھا گیا”۔ (رومیوں ۲۱:۱) IKDS 5.2
تاہم خداوند نے اُنہیں اپنا رحم دکھایا اور صفحہء ہستی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مٹا نہ دیا۔ اُس نے اُنہیں ایک اور موقع فراہم کیا تاکہ وہ اُسے اُس کی چُنیدہ قوم کے ذریعہ پہچان سکیں۔ قربانی کی رسم کی تعلیم کے ذریعہ مسیح کو تمام قوموں کے سامنے بلند کرنا مقصود تھا اور جو کوئی اُس پر نظر کرے گا زندہ رہے گا۔ خداوند یسوع مسیح یہودی ضابطہ حیات کا منبع تھا۔ تمام یہودی نظام (مذہبی اور سوشل امور) علامتی طور پر انجیل کی پیشنگوئی تھی۔ جس میں نجات کے تمام وعدے پائے جاتے تھے۔ IKDS 6.1
مگر بنی اسرائیل خدا کی نمائندگی کرنے کے حق اور شرف سے یکسر غافل ہو گئے۔ وہ خدا کو بھول گئے اور یوں وہ اپنے مقدس فریضہ کو انجام دینے میں ناکام ہو گئے اور جو برکات انہوں نے حاصل کی تھیں وہ دُنیا کے لئے باعث رحمت نہ ہو سکیں۔ جو نعمتیں اور بخششیں اور حقوق خدا نے انہیں دے رکھے تھے وہ اُنہوں نے اپنی ہی شان و شوکت کے لئے مختص کر لئے۔ آزمائش سے بچنے کے لئے وہ دُنیا سے الگ تھلگ ہو گئے۔ بت پرستوں کے ساتھ میل جول نہ رکھنے کے لئے خدا نے جو پابندیاں بنی اسرائیل پر لگا رکھی تھیں اُس کو بہانہ بنا کر اُنہوں نے اپنے اور غیر قوم والوں کے درمیان علیحدگی کی ایک دیوار حائل کر لی۔ اور جس خدمت کا خداوند نے اُن سے مطالبہ کیا تھا اُس سے اُنہوں نے پہلو تہی کر لی۔ اور اسی طرح جو روحانی رہنمائی انہیں کرنی تھی اور اپنے بھائی بندوں کو جو پاکیزہ نمونہ دینا تھا اس سے کلی طور پر گریز کیا۔ IKDS 6.2
کاہن اور حاکم رسموں کی ہی پابندی پر زیادہ توجہ دینے، اور شریعت اور مذہبی قوانین کو ماننے میں ہی تسکین پانے لگے۔ یوں اُن کے لئے ناممکن ہو گیا کہ وہ دوسروں کو زندہ آسمانی صداقت سے روشناش کرا سکیں۔ وہ سمجھے لگے کہ اُن کی اپنی راستبازی ہی کافی ہے۔ اُنہوں نے یہ ضرورت ہی محسوس نہ کی کہ اُن کے مذہب میں کسی دوسری قوم کا باشندہ شامل ہو۔ وہ سوچتے تھے کہ اُن کے اعمال حسنہ کی بدولت خدا وند کی تمام نیکی، بھلائی، فضل اور صحت صرف اُن کے لئے ہی مُختص ہے۔ وہ ایمان جو محبت کی رو سے متحرک ہوتا اور جو روح کو پاکیزگی عطا کرتا ہے وہ فریسیوں کے مذہب میں سے کیونکر حاصل ہو سکتا تھا جس کی بنیاد انسانی روایات اور رسوم پر مبنی تھی۔ IKDS 7.1
اسی لئے بنی اسرائیل کے لئے خداوند نے یوں فرمایا “میں نے تجھے کامل تاک لگایا اور عمدہ بیج بویا تھا پھر تُو کیوں کر میرے لئے بے حقیقت جنگلی انگور کا درخت ہوگئی؟” ۔ (یرمیاہ ۲۱:۲) “اسرائیل لہلہاتی تاک ہے جس میں پھل لگا۔ جس نے اپنے پھل کی کثت کے مطابق بہت سی قربان گاہیں تعمیر کیں اور اپنی زمین کی خوبی کے مطابق اچھے اچھے ستون بنائیں”۔ (ہو سیع ۱:۱۰) IKDS 7.2
“اب اے یروشیلم کے باشندو اور یہودہ کے لوگو میرے اورمیرے تاکستان میں تم ہی انصاف کرو۔ کہ میں اپنے تاکستان کے لئے اور کیا کر سکتا تھا جو میں نے نہ کیا؟ اور اب جو میں نے اچھے انگوروں کی اُمید کی تو اس میں جنگلی انگور کیوں لگے؟ میں تم کو بتاتا ہوں کہ اب میں اپنے تاکستان سے کیا کروں گا۔ میں اُس کی باڑ گرادوں گا اور وہ چراگاہ ہو گا۔ اُس کا احاطہ توڑ ڈالوں گا اور وہ پامال کیا جائے گا اور میں اُسے بالکل ویران کر دوں گا۔ وہ نہ چھانٹا جائے گا نہ نرایا جائے گا۔ اُس میں اونٹ کٹارے اور کانٹے اُگیں گے۔ اور میں بادلوں کو حکم کروں گا کہ اُس پر مینہ نہ برسائیں۔ سو رب الافواج کا تاکستان بنی اسرائیل کا گھرانہ ہے اور بنی یہودہ اُس کا خوشنما پودہ ہے۔ اُس نے انصاف کا انتطار کیا پر خونریزی دیکھی۔ وہ داد کا منظر رہا پر فریاد سُنی”۔ (یسعیاہ ۳:۵-۷) “تم نے کمزوروں کو توانائی اور بیماروں کو شفا نہیں دی اور ٹوٹے ہوئے کو نہیں باندھا اور وہ جو نکال دئیے گئے اُن کو واپس نہیں لائے اور گم شدہ کی تلاش نہیں کی۔ بلکہ زبردستی اور سختی سے اُن پر حکومت کی”۔ (حزقی ایل ۴:۳۴) IKDS 7.3
یہودی قیادت خود کو عقلمند سمجھتے ہوئے کسی مشورے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی تھی۔ بلکہ خود کو راستباز سمجھتے ہوئے نجات کی ضرورت سے بے نیاز تھی۔ اُن کی معاشرے میں اسقدر عزت افزائی ہو رہی تھی کہ اُنہیں اُس عزت کی ضرورت محسوس نہ ہوئی جو یسوع مسیح سے صادر ہوتی ہے۔ اسی لئے خدا وند یسوع مسیح نے اُن سے منہ موڑ لیا اور اُن کی طرف پلٹا جن کا یہودیوں نے حق مار لیا تھا۔ خدا کا جلال ضرور ظاہر ہونا چاہیے اور اُس کے کلام کو استحکام۔ اسی طرح خدا کی نجات ویران شہروں تک پہنچنی چاہیے شاگردوں کو بُلانے کی یہی وجہ تھی تاکہ وہ اُس کام کو تکمیل دے سکیں جس کو یہودی قیادت انجام دینے میں ناکام رہی۔ IKDS 8.1