شفا کے چشمے
اڑھتیسوں باب - گھر کا اثرورسوخ
بچوں کے لئے دنیا میں گھر سے زیادہ کوئی اور جگہ دلکش نہیں ہونی چاہیے- اور اسمیں ماں کی موجودگی دلپسند اور گھر کی بنیاد کی مانند ہو- بچوں کی فطرت بہت پیاری اور بہت ہی احساس ہوتی ہے- وہ جلد ہی خوش اور جلد ہی ناراض ہو جاتے ہیں- محبت کے کام اور کلام نیز مروت سے ماں کی تنبیہ بچوں سکو گرویدہ کر لیتی ہے- SKC 276.1
بچے دوسروں کی شبت اور محبت پسند کرتے ہیں- شاذونادر ہی وہ تنہائی پسند کرتے ہیں- وہ شفقت اور غمخواری کی چاہت رکھتے ہیں- اور جن چیزوں سے وہ حظ اٹھاتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ انکی ماں بھی ان چیزوں سے لطف اندوز ہوتی ہے- اسی لئے وہ فطری طور پر اپنی چوٹی چوٹی خوشیوں اور گھمیوں کیلئے ماں کے پاس جاتے ہیں- اس لئے ماں کو انکی توقعات کے خلاف سکوں کر کے انکا دل نہ توڑنا چاہیے- گو بچوں کی توقع ماں کے نزدیک معمولی بات ہو مگر انکے لئے بڑی اہم ہے- ماں کی غمخواری اور رضامندی بچوں کے لئے بڑی قدر کی حامل ہے- SKC 276.2
حوصلہ افزائی یا شاباش کا ایک لفظ یا رضامندی کی ایک طائرانہ نظر انکے دلوں میں سورج کی کرن کی مانند ہو گی اور سارا دن اسکی وجہ سے وہ خوش و خرم رہیں گے- SKC 276.3
بچوں کے شور اور چھوٹے موٹے مطالبات سے تنگ آ کر بچوں سکو اپنے پاس سے دور بھگانے کی بجائے ماں سکو چاہیے کے ان کے لئے خوش طرب اور ہلکے پھلکے کام کا انتظام کرے جن سکو کرنے کے لئے وہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں اور ذہن و دماغ کو کام میں لا سکیں- SKC 276.4
اس طرح مائیں ان کے احساس اور شور میں شامل ہونے اور انکی خوشیوں میں مدد کرنے اور انکے کام دینے کی وجہ سے اپنے بچوں کا اعتماد جیت لے گی اور موّثر انداز میں انکی غلط عادات کی درستی کر سکے گی- اور اگر ان میں خود غرضی یا شدید ہیجان پائے گی تو اسکا بھی سدباب کر سکے گی- تنبیہ کا ایک بروقت لفظ بڑی وقعت رکھتا ہے- صبر اور محبت سے بچوں کی نگرانی کرنے سے ماں بچوں کے ذہن صحیح سمت کی طرف راغب کر سکتی ہے- نیز وہ ان میں کردار کی خوبصورت اور دلکش خصوصیات پیدا کر سکتی ہے- مائیں تربیت کے دوران اس بات سے خبردار رہیں کہ ان کے بچے کی تربیت ایسی نہ ہو جو انھیں محتاج بنا دے- یا وہ ایسے نہ بن جائیں کہ وہ تمام تر توجہ اپنے ہی اوپر جمائے رکھیں- انہیں اس طرح کی تربیت نہ دیں- مبادہ وہ سوچنا شروع کر دیں کہ وہ مرکز ہیں اور ہر ایک سکو ان کے ہی گرد گھومنا چاہیے- بہت سے والدین اپنے بچوں کو خوش کرنے کے لئے بہت سا وقت صرف کر دیتے ہیں- ہونا یہ چاہیے کہ بچے اپنے آپ کو خود محفوظ کریں- اسکے لئے وہ اپنی صلاحیتوں اور اختراعات کو کام میں لائیں- اس طرح وہ چوٹی موتی خوشیوں سے بھی مطمئن ہو جائیں گے- انھیں یہ سکھائیں کہ اپنی آزمائشوں اور مایوسیوں کا جوانمردی سے مقابلہ کریں- خفیف درد اور تکلف کے لئے مدد طلب کرنے کی بجائے ہمت اور حوصلہ سے کام لیں، انھیں سکھائیں کہ معمولی بیچینی اور ناراضگیوں سکو خاطر میں نہ لائیں- انھیں یہ بھی صلاح مشورے دیں کہ وہ دوسروں کی قدر کرنا سیکھیں- SKC 276.5
مگر بچے کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں ہونے چاہییں- بعض فکروں تلے دبی ہوئی مائیں سوچتی ہیں کہ ہم بچوں کی تربیت تحمل اور محبت اور غمخواری سے نہیں کر سکتیں- لیکن یاد رکھئے گا کہ اگر بچوں کو اپنے گھر میں غمخواری اور رفاقت جن کی وہ خواہش کرتے ہیں نہ ملی تو اسے پانے کے لئے وہ کسی اور کی تلاش کریں گے جو ذہن و دماغ اور سیرت دونوں کے لئے بے حد خطرناک ثابت ہو سکتی ہے- SKC 277.1
وقت اور ادراک کی کمی کے سبب بہت سی مائیں بچوں کی معصوم سے خوشیاں پوری کرنے سے انکار کر دیتی ہیں تاہم بچوں کی خوشیوں کے لئے کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جو بچوں کے غرور سکو ہوا دے کیونکہ یہ کام غرور اور اخلاقی بے راہروی کا پھل لائیں گے- بعد میں ماں بچوں کی خطاؤں کیلئے غم کرتی ہے- مگر یہ محسوس نہیں کرتی کہ جو فصل وہ کاٹ رہی ہے اسکو اس نے خود بویا تھا- بعض اوقات مائیں بچوں کے ساتھ استحکام اور یکساں روی سے کام نہیں لیتیں- کبھی کبھی تو انکو ایسے کھانے کی اجازت دے دیتی جو انکے لئے نقصان کا باعث ہے اور کبھی کبھی ایسے کھانے جن کو کھا کر انکی معصوم خوشیوں میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ نقصاندہ بھی نہیں ہوتے کھانے سے منع کر دیتی- یوں کرنے سے ایسی مائیں یسوع کے نمونے کو نہیں اپناتیں- وہ بچوں سکو پیار کرتا تھا- ان کے احساسات سے واقف ہوتا تھا اور انکی آزمائشوں اور دکھوں میں ان سے ہمدردی جتاتا اور ان کی خوشیوں میں شامل ہوتا تھا- SKC 277.2