شفا کے چشمے
بچے کی غذا
شیر خوار بچے کے لئے سب سے اچھی غذا تو وہی ہے جو فطرت مہیا کرتی ہے۔ اس سے بچوں کو غیر ضروری طور پر محروم نہ رکھا جائے۔ وہ ماں سنگدل اور بے رحم ہی ہو گی جو اپنی سہولت اور خوشی کے لئے، بچے کو اپنا دودھ پلانے کے مقدس فریضے سے آزاد ہونا چاہتی ہے۔ SKC 271.4
وہ ماں جو اپنے بچے کو دوسرے شخص کے کندھے لگ کر غذا حاصل کرنے کی اجازت دیتی ہے وہ ااس کے نتائج سے بھی اچھی آگاہی حاصل کر لے۔ جو بچے کو کھلاتا پلاتا ہے وہ کم و بیش اپنا مزاج، سرشت اور خصلت بچے میں منتقل کر دیتا ہے۔ SKC 271.5
بچے کی تربیت کے سلسلہ میں صحیح طرح کے کھانے کی عادات کو بمشکل نظر انداز کیا جا سکتا ہے۔ چھوٹے بچوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اس لئے کھاتے ہیں تاکہ زندہ رہیں نہ کہ اس لئے زندہ رہیں کہ کھائیں۔ بچے کی تربیت ماں کی گود سے شروع ہونی چاہیے جب وہ دودھ پی رہا ہے یا جب وہ اپنی ماں کے بازؤں میں ہے۔ بچے کووقت مقررہ پر ہی کھانا دینا چاہیے۔ اور جوں جوں وہ بڑھتا ہے اوقات میں کمی کرتے جانا چاہیے۔ نہ تو اُسے میٹھی غذائیں اور نہ ہی بڑی عمر کے لوگوں کا کھانا اُسے دینا چاہیے کیونکہ یہ اُس کے لئے ہضم کرنا مشکل ہو گا۔ شیر خوار کو باقاعدگی سے کھلانے پلانے سے نہ صرف اُس کی صحت ترقی کرے گی۔ بلکہ اس سے عادات کی بنیاد پڑے گی جو آنے والے سالوں میں اُس کے لئے برکت کا باعث ٹھہرے گی۔ SKC 271.6
جب ایک بچہ عہد طفولیت کو عبور کر لیتا ہے تو پھر بھی تعلیم دینے اور کھانے پینے کے بارے اُس کی بڑی خبر گیری کرنے کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ اکثر کہہ دیا جاتا ہے کہ کھانے میں چناؤ کرو اور کھاؤ۔ اور جب وہ صحت کے اُصولوں کو مدِ نظر رکھے بغیر چناؤ کرتے ہیں تو غیر صحت مند کھانے پر بہت سا خرچ آ جاتا ہے جو اُنہیں مزیدار لگتے ہیں۔ یہ غیر صحت بخش مہنگے اور مزیدار کھانے اُنہیں بہت خوشی دیتے ہیں۔ یوں اُنہیں اپنے دل پسند کھانے کھانے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ SKC 272.1
ایسی تربیت کا نتیجہ بسیارخوری اور اُس کے بعد بیماری جو عموماً زہریلے ڈرگز لینے کے بعد واقع ہوتی ہیں۔ SKC 272.2
والدین کو خود کھانے پینے کے بارے بچوں کی تربیت کرنی چاہیے اور اُن کو کسی بھی صورت میں غیر صحت مند کھانے کھانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ مگر غذا کے بارے قانون بناتے وقت اس بات کا دھیان رہے کہ بچوں کو کبھی بھی ایسی چیز کھانے پر مجبور نہ کریں جو بد مزہ ہو۔ انہیں ضرورت سے زیادہ کھانے پر بھی مجبور نہ کریں۔ بچوں کے بھی حقوق ہیں۔ وہ بھی ایک چیز کو دوسری پر ترجیح دے سکتے ہیں۔ اور جب اُن کی یہ ترجیحات غیر معقول نہ ہوں تو اُن کی قدر کرنا چاہیے۔ SKC 272.3
کھانے میں باقاعدگی کا ضرور دھیان رکھا جائے۔ ایک وقت کھانا کھا لینے کے بعد دوسرے کھانے کے وقت سے پہلے کچھ نہ کھایا جائے۔ نہ مٹھائی، نہ کسی قسم کے مغزیات، نہ کوئی پھل اور نہ ہی کسی قسم کا چھوٹا موٹا کھانا۔ وقت بے وقت کھاتے رہنے سے ہاضمہ کے عضو میں خرابی آ جاتی ہے جس سے صحت خراب ہو جاتی ہے اور خوشی و خرمی معدوم۔ وقت بے وقت کھانے پینے والے بچے جب میز پر آ جاتے ہیں تو وہ صحت افزا کھانے کو چکھتے بھی نہیں۔ اُن کو جی اُن کھانوں کو چاہت کرتا ہے جو اُن کی صحت کے لئے نقصان دہ ہیں۔ وہ مائیں جو بچوں کی صحت اور خوشی کو داؤ پر لگا کر بچوں کو اُن کے من بھاتا کھانے کھلاتی ہیں، بدی کے بیج بوتی ہیں جو بڑھ کر ضرور پھل لائیں گے۔ اپنی مرضی اور رغبت کے کھانے کھانے کی عادت بچپن سے ہی اُستوار ہوتی ہے جو ذہنی اور جسمانی قوتوں پر نفی اثرات ڈالتی ہے۔ جو مائیں ایسا کرتی ہیں وہ تلخی اور دُکھ کی فصل کاٹیں گی کیونکہ اُنہوں نے خود پہلے ایسا بیج بویا۔ وہ اپنے بچوں کو ذہنی طور پر غیر موذوں نشوونما پاتے ہوئے دیکھیں گی۔ اور اُن کا کردار ایسا ڈھلتا جائے گا جو نہ اپنے گھر اور نہ ہی معاشرے کے لیے مفید اور برکت کا باعث ہو گا۔ غیر صحت بخش کھانا کھانے سے جسمانی اور ذہنی قوتیں بُری طرح متاثر ہوتی ہیں۔ ضمیر مُردہ ہو جاتا ہے اور انسان کی عزت خاک میں مل جاتی ہے۔ SKC 272.4
جب بچوں کو صحت کے حوالے سے کھانے پینے کے بارے خود ضبطی سکھائی جائے تو اُن پر یہ بات ضرور واضح کریں کہ ہم آپ کو صرف وہی غذا کھانے سے منع کر رہے ہیں جو غیر صحت بخش ہے۔ اُنہیں مُضر غذا کی جگہ اچھی غذا دیں۔ میز پر رکھا ہوا کھانا دلکش اور مرغوب ہو اور میز اُن اچھے کھانوں سے سجی ہو جو خُد انے ہمیں عطا کر رکھے ہیں۔ کھانے کے اوقات خوشی و مسرت کے اوقات بنائیں۔ SKC 273.1
جب ہم خُدا کی بخششوں کا حظ اُٹھاتے ہیں تو جس رزاق نے ہمیں یہ سب کچھ دیا ہے اُس کا شکریہ ادا کریں۔ SKC 273.2