شفا کے چشمے

101/174

اجازت نامہ

شراب خوری کی لت کو کم کرنے کے لئے بعض سوچتے ہیں کہ حکومت کی طرف سے شراب کے کاروبار کے لئے اجازت نامے جاری ہونے چاہئیں۔ مگر یاد رہے کہ حکومت کے جاری کردہ اجازت نامے اُنہیں قانونی پناہ مہیا کرنے کے پابند ہوں گے۔ یوں حکومت جس بُرائی کو کم کرنا چاہتی ہے اجازت دے کر نہ چاہتے ہوئے بھی سرپرست بن جاتی ہے۔ قانونی حفاظت کے تحت سارے وطن میں شراب نکالنے کی بھٹیاں قائم ہو جائیں گی اور شراب کے بیوپاری ہمارے گھروں کے آس پاس ہی اپنا کاروبار شروع کر لیں گے۔ شراب کا کاروبار کرنے والوں کے جوانوں کی بدولت ہی وارے نیارے ہوتے ہیں۔ شراب کے بیوپاری نوجوانوں کو وقفہ بہ وقفہ تھوڑی تھوڑی پلاتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ پکے شرابی بن جاتے ہیں۔ اور اپنی اس بُری خصلت کی تشفی کے لئے وہ کچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔ جو عادی شرابی ہیں اُن کو اگر شراب دے دی جائے تو بے شک ملت کا کم نقصان ہو گا کیونکہ عادی شرابی تو خود کو برباد کرنے کا تہیہ کئے بیٹھے ہیں مگر وہ نوجوان جو عادی نہیں اُن کی اُٹھتی جوانیوں کو بچانے کے لئے ضرور بندش عائد کرنی چاہیے کیونکہ اُنہوں نے ابھی بربادی کی شاہراہ پر قدم نہیں رکھا۔ SKC 240.4

اجازت ناموں کے ذریعے شراب بیچنے کا ایک اور بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ جو اپنی اصلاح کرنا چاہتے ہیں آزمائش تو ہر وقت اُن کے آ س پاس منڈلاتی رہے گی۔ بیشک ایسے ادارے قائم کئے گئے ہیں جن میں بُری عادات کے لوگوں کی اصلاح کی جاتی ہے۔ یہ تو بہت ہی نیک کام ہے۔ لیکن جب تک شراب بیچنے کی اجازت ہے شرابی اس طرح کے اداروں کا کم ہی فائدہ اُٹھاتا ہے۔ کیونکہ اُنہیں ساری زندگی وہاں تو نہیں رہنا۔ اُنہیں واپس سوسائٹی میں آنا ہے۔ اُن میں نشہ کرنے کی خواہش خواہ رک گئی ہے مگر مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی اور جب آزمائش اُن کو گھیر لیتی ہے تو وہ بہ آسانی اُس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ SKC 241.1

اگر کسی شخص کے پاس خونخوار درندہ ہو اور اُس کی خصلتوں سے آگاہ کرتے ہوئے بھی اُسے آزاد چھوڑدے تو ملکی قانون مالک کو اُس نقصان کا ذمہ دار قرار دے گا جو اُس درندے نے کیا ہے۔ خُداوند تعالےٰ نے اُس شریعت میں جو اُس نے بنی اسرائیل کو دی فرمایا کہ اگر کسی کا کوئی بیل جسے مارنے کی عادت ہو اور اُس کے مارنے سے اگر کوئی انسان مر جائے تو مالک کو اپنی غفلت کا ہرجانہ بھرنا ہو گا۔ اسی اصول کے تحت جو حکومت شراب بیچنے کا اجازت نامہ جاری کرتی ہے اُسے شراب کے نتائج کا ذمہ دار ہونا چاہیے۔ اگر کسی جانور کو کھلا چھوڑ دینے والا موت کے جرم کا سزاوار ہے تو شراب بیچنے کی اجازت دینے والا کیا ذمہ دار نہ ہو گا؟ SKC 241.2

شراب بیچنے کے اجازت ناموں کا یہ جواز بتایا جاتا ہے کہ یوں پیسہ حکومت کے خزانہ میں آتا ہے۔ لیکن جب اس آمدنی کا موازنہ جرائم، پاگلپن، مفلسی سے کیا جاتا ہے جو شراب بیچنے کے نتیجہ میں آتی ہے تو یہ آمدنی برائے نام رہ جاتی ہے۔ ایک شخص شراب کی مدہوشی میں جرائم کا مرتکب ہوتا ہے۔ عدالت میں لایا جاتا ہے اور پھر وہی لوگ جنہوں نے شراب بیچنے کی اجازت دے رکھی ہے اپنے کئے دھرے کے نتائج کا فیصلہ کرتے ہیں۔ پہلے اُنہوں نے اجازت دی کہ ایک عقلمند، ذی ہوش شخص پاگل اور دیوانہ ہو جائے۔ پھر اُن کے لئے لازم ہو گیا کہ اُسے جیل بھیجیں یا پھانسی دیں۔ جب کہ اُس کی بیوی اور بچے خستہ حال، بے یارومدد گار دُنیا کی لعن طعن برداشت کرنے کے لئے رہ گئے۔ SKC 242.1

اگر اس کے اقتصادی پہلو کو ہی دیکھیں تو اس طرح کے کاروبار کو خیرباد کہنے میں کیا حرج ہے؟ وہ آمدنی جوا س کاروبار سے حکومت کو ہوتی ہے اُس کا اُس نقصان سے کیا مقابلہ ہے جو ہم انسانوں کو ہوتا ہے؟ کیا یہ آمدنی اُس نقصان کی تلافی کر سکتی ہے؟ SKC 242.2

خُدا نے انسان کو اپنی شبیہ پر بنایا۔ شراب خوری سے وہ شبیہ مسخ ہو جاتی ہے۔ بچے برباد ہوجاتے ہیں۔ تنگ دستی حد سے بڑھ جاتی ہے۔ ذلت ورسوائی ڈیرہ ڈال لیتی ہے۔ اور اس سے بڑھ کر یہ کہ بچوں میں اپنے باپ کی بُری خصلتوں کو اپنانے کا رجحان پیدا ہوجاتا ہے۔ کیا اس کی رقم تلافی کر سکتی ہے؟ SKC 242.3