زمانوں کی اُمنگ

15/45

باب نمبر 12 - آزمائش

“اور یسوع روح القدس سے بھرا ہوا یردن سے لوٹا اور چالیس دن تک روح کی ہدائت سے بیابان میں پھرتا رہا “لوقا 1:4 ZU 121.1

“اور فی الفور روح نے اُسے بیابان میں بھیج دیا۔ اور وہ بیابان میں چالیس دن تک شیطان سے آزمایا گیا اور جنگلی جانوروں کے ساتھ رہا کیا اور فرشتے اُس کی خدمت کرتے رہے” مرقس 12:1-13 ZU 121.2

“اُن دنوں میں اُس نے کچھ نہ کھایا” لوقا 2:1 ZU 121.3

جب یسوع بیابان میں آزمائے جانے کو بھیج دیا گیا تو وہ خدا کی روح میں گیا۔ اُس نے آزمائشوں کو مدعو نہ کیا۔ وہ بیاباں میں تنہا رہنے کے لئے گیا تھا تاکہ اپنے کام اور اُس کی غرض و غائت پر غورو خوض کر سکے۔ دُعا اور روزے کے ذریعے اُس نے خود کو آراستہ کیا تاکہ جس خوفی راستہ پر اُسے چلنا تھا اُس کے لئے تیار ہو سکے۔ ابلیس بھی جانتا تھا کہ نجات دہندہ بیابان میں گیا ہے۔ اور اُسے آزمانے کا اس سے اور کوئی بہتر وقت نہیں۔ نور کے شہزادے اور تاریکی کے حاکم کے درمیان کشمکش زندگی اور موت کا سوال تھا۔ کیوں کہ انسان کو گناہ میں دھکیلنے کے بعد ابلیس کا دعوےٰ تھاکہ یہ دھرتی اب میری ہے اور میں اس کا فرمانروا ہوں۔ ہمارے پہلے والدین آدم اور حوّا کی فطرت کو اپنی فطرت پر تبدیل کر کے اُس نے سوچا یہاں میں اپنی حکومت قائم کروں گا۔ بلکہ اُس نے اعلانیہ کہا کہ انسان نے مجھے اپنا حاکم چُن لیا ہے۔ اور یہ سچ تھا کہ آدم کے ذریعے اُسکی حکومت اس دُنیا پر ہو گئی۔ ابن آدم ہوتے ہوئے بھی مسیح یسوع کو صرف خداوند خدا کے تابع رہنا تھا۔ اس طرح اُس نے ثابت کرنا تھا کہ انسان پوری طرح ابلیس کے قبضہ میں نہیں ہے اور یہ صرف ابلیس کا جھوٹا دعوٰی ہے۔ وہ تمام لوگ جو اُس کے چنگل سے آزاد ہونا چاہتے ہیں اُنہیں آزاد کرایا جائے گا۔ اور گناہ کے سبب وہ حکومت جو بزرگ آدم کھو چُکا تھا اُسے بحال کیا جائے گا۔ باغ عدن میں اس اعلان کے بعد کہ “میں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالوں گا” پیدائش 15:3 ” ابلیس جانتا تھا کہ اس دُنیا پر اُس کا مکمل قبضہ نہیں۔ انسان کے اندر ایسی قوتیں کام کرتی ہوئی دیکھی گئیں جو ابلیس کی حکمرانی کے خلاف جنگ آزما تھیں۔ بزرگ آدم اور اُسکے بچوں نے جو قربانیاں گذرانیں وہ اُس نے بڑی دلچسپی اور انہماک کے ساتھ دیکھیں۔ ان مذہبی رسوم میں اُس نے زمین اور آسمان کے ملاپ کو دیکھا۔ لہٰذا اُس نے ان میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔ اُس نے خدا کے بارے غلط تفسیر کی اور اسی طرح مذہبی رسوم کو بھی جو نجات دہندہ کی علامت تھیں غلط رنگ دیا۔ ابلیس انسانوں کی بربادی میں خوش تھا۔ اسی لئے اُس نے خدا کو اسطرح پیش کیا کہ انسان اُس سے لرزاں اور ترساں رہیں۔ ابلیس نے انسانوں کے بد جذبات کو ترغیب دی تاکہ اُن پر اپنی حکومت قائم رکھ سکے۔ جب خدا کا تحریر شدہ کلام دیا گیا تو ابلیس نے نجات دہندہ کے آنے کی پیشنگوئی کا بغور مطالعہ کیا۔ نسل در نسل ان پیشنگوئیوں کے بارے ابلیس لوگوں کو بے خبر رکھنے کے لئے کام کرتا رہا تاکہ جب وہ آئے تو یہ اُسے رد کر دیں۔ ZU 121.4

مسیح یسوع کے جنم کے بارے ابلیس کو معلوم ہو گیا تھا کہ وہ آ چکا ہے یعنی جس کا وعدہ کیا گیا تھا اور اب وہ میری حکومت میں تنازعہ ڈالے گا۔ اور جب فرشتے نے نئے بادشاہ کے آنے کی تصدیق کر دی تو ابلیس اُس کے اعلان پر ڈر کے مارے تھر تھرانے لگا۔ کیونکہ ابلیس مسیح یسوع کے اُس رُتبے کو بخوبی جانتا تھا جو وہ آسمان میں رکھتا ہے۔ وہ اس بات پر اُنگشت بدندان رہ گیا کہ خدا کا بیٹا مجسم ہو کر اس دُنیا میں آ گیا ہے۔ یہ سب کچھ اُس کی سمجھ سے باہر تھا۔ ابلیس کے لئے ابن آدم کی یہ بڑی قربانی سربستہ راز تھا۔ ZU 122.1

جس نے نسل انسانی کو دھوکا دے رکھا تھا اُس کی خود غرضانہ نیت ابن آدم کی بے لوث محبت کو کیوں کر سمجھ سکتی تھی۔ آسمان کا جلال اور صلح اور خدا کے ساتھ رفاقت انسان بہت کم سمجھے۔ تاہم لو سفیرا سے خوب سمجھتا تھا جو پہلے سایہ افگن فرشتہ تھا۔ چونکہ اُسے آسمان سے گرادیا گیا تھا اسلئے وہ چاہتا تھا کہ خدا کے بندوں کو خدا کے دور کر کے خدا سے بدلہ لے۔ اور وہ آسمانی باتوں اور چیزوں کی تحقیر کر کے ہی ایسا کر سکتا تھا۔ اس لئے اُس نے ہر حربہ استعمال کیا تاکہ انسانوں کے دل جسمانی چیزوں میں دلچسپی رکھیں۔ ZU 123.1

رکاوٹ اور مخالفت کا سامنا کئے بغیر مسیح خداوند انسانوں کو اپنی حکومت کے لئے جیت نہ سکتا تھا۔ جب سے وہ بیت الحم میں بچہ بن کر آیا اُسی وقت سے اُسے مسلسل ابلیس کی مخالفت کا سامنا تھا۔ خدا کی شبیہ مسیح میں پائی جاتی تھی۔ جسے ابلیس تباہ کرنے کا تہیہ کر بیٹھا تھا۔ جو بھی اس دُنیا میں آیا ہے دھوکے باز ابلیس کے ہاتھوں بچ نہیں سکا۔ تمام ابلیسی قوتیں مسیح کے خلاف کام پر معمور کر دی گئیں اور انہیں حکم دیا گیا کہ اگر ممکن ہو تو اُس پر غالب آئیں۔ ZU 123.2

نجات دہندہ کے بپتسمہ کے وقت ابلیس بھی گواہوں میں شامل تھا۔ اُس نے دیکھا کہ باپ کے جلال نے بیٹے کو ملبس کر رکھا ہے۔ اُس نے یہواہ کی آواز سُنی جس نے یسوع کی الوہیت کی تصدیق کی۔ بزرگ آدم کے گناہ کے بعد نسل انسانی کا رابطہ خداوند سے کٹ چکا تھا۔ آسمان اور زمین کی اگر ملاقات ہونی تھی تو وہ صرف المسیح کے ذریعہ۔ اب تو المسیح نفس نفیس آچکا تھا۔ “گناہ آلود جسم کی صورت میں “رومیوں 3:8 خدا نے خود فرمایا کہ وہ نسل انسانی سے المسیح کی وساطت سے رفاقت رکھتا رہا ہے۔ اور اب وہ نسل انسان کی رفاقت و شراکت مسیح میں کرتا ہے۔ ابلیس کا گمان تھا کہ آدم کے گناہ کے بعد خدا اور نسل انسانی کے درمیان مکمل جُدائی پیدا ہو جائے گی۔ لیکن اب ابلیس پر واضح ہو گیا کہ خدا اور انسان کے درمیان صلح ہے۔ اور ٹوٹا ہوا رشتہ بحال ہو گیا ہے۔ ZU 123.3

ابلیس نے جان لیا کہ اب اُسے غالب آتا ہے یا مغلوب ہونا ہے۔ نیز اُسے اب اپنے فرشتوں پر زیادہ انحصار نہیں کرنا بلکہ اُسے یہ جنگ بذات خود لڑنا ہو گی۔ لہٰذا بدی کی تمام قوتیں خدا کے بیٹے کے خلاف جمع ہو گئیں۔ جہنم کے تمام تیروں کا حدف صرف اور صرف یسوع مسیح تھا۔ ZU 124.1

جو کشمکش مسیح یسوع اور ابلیس کے درمیان جاری تھی اُس کے بارے بہتیرے سوچتے تھے کہ اسکا زندگیوںپر کوئی اثر نہ پڑے گا۔ اس لئے اُنہیں اس سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی۔ تاہم اس جنگ کا اعادہ ہر انسان کے دل کی بادشاہی میں جاری رہتا ہے۔ کوئی شخص بھی ابلیس سے نبردآزما ہوئے بغیر خدا کی خدمت نہیں کرسکتا۔ جن آزمائشوں کا مقابلہ مسیح یسوع کو کرنا پڑا ہمیں اُن کا سامنا کرنا بہت ہی مشکل دکھائی دیتا ہے۔ مگر یاد رہے اُس کی سیرت ہم سے برتر ہے اُس کی آزمائشیں بھی اُسی قدر زیادہ اور سخت تھیں۔ تمام دُنیا کے ہولناک گناہوں کا بوجھ رکھتے ہوئے مسیح خداوند اشتہا، دنیا کی محبت جیسی آزمائشوں پر غالب آیا۔ یہی آزمائشیں تھیں جنہوں نے آسانی سے ہمارے پہلے والدین کو اُلجھا لیا تھا اور یہی آزمائشیں آج ہمیں اُلجھا رہی ہیں۔ ZU 124.2

بزرگ آدم کے گناہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ابلیس نے کہا تھا کہ خداوند کی شریعت بے انصافی پر مبنی ہے اس پر کوئی عمل نہیں کر سکتا۔ بشریت میں ہو کر مسیح خداوند بزرگ آدم کی ناکامیوں کا ازالہ کرنے آیا تھا۔ مگر ایک بات یاد رہے کہ جب ابلیس نے بزرگ آدم اور حوا کو آزمایا اُس وقت اُن پر گناہ کا کوئی بوجھ نہ تھا۔ وہ دونوں جسمانی لحاظ سے بھی تندرست و توانا تھے۔ اُن کی ذہنی اور جسمانی تمام قوا برقرار تھیں۔ عدن کا جلال اُنہیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھا۔ ZU 125.1

روزانہ آسمانی مخلوق اُن کے پاس آیا جایا کرتی تھی۔ لیکن جب خداوند مسیح بیابان میں ابلیس سے آزمائے جانے کے لئے داخل ہوا اُسے یہ تمام سہولتیں میسر نہ تھیں۔ چار ہزار سال تک انسانیت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی تھی۔ مسیح یسوع نے وہی بشریت اپنے اوپر لی تاکہ انسان کو اُس کی پست حالی سے اُٹھا کر بلندیوں تک پہنچائے۔ ZU 125.2

پہلے مقدس جوڑے کے سامنے باغ عدن میں اور یسوع مسیح کے سامنے بیابان میں سب سے پہلے کھانے پینے کی آزمائش رکھی گئی۔ کیوں کہ یہ لازم تھا کہ جہاں سے نسل انسانی کی بربادی شروع ہوئی تھی وہاں سے ہی اُس کی نجات کا کام شروع کیا جاتا۔ جیسے بزرگ آدم کھانے کی آزمائش میں گرا، لازم تھا کہ اشتہا سے منہ موڑ کر ابن آدم اس آزمائش پر غالب آتا۔ ZU 125.3

“اور چالیس دن اور چالیس رات فاقہ کر کے آخر کو اُسے بھوک لگی اور آزمانے والے نے پاس آکر اُس سے کہا اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو فرما کہ یہ پتھر روٹیاں بن جائیں۔ اُس نے جواب میں کہا لکھا ہے کہ آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہے گا۔ بلکہ ہر بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے” متی 2:4-5 ZU 125.4

بزرگ آدم کے وقت سے لیکر اشتہا کی رغبت یہاں تک بڑھ گئی تھی کہ اُس پر کوئی کنٹرول باقی نہ رہا۔ یوں لوگوں میں ہر طرح کی بیماری آگئی۔ وہ اخلاقی طور پر بھی بہت گر گئے۔ اب اُن کے لئے مشکل ہو گیا کہ بد پرہیزی اور اشتہا پر بذات خود قابو پاسکیں۔ انسان کی خاطر مسیح نے سخت ترین آزمائشوں کا مقابلہ کیا۔ ZU 126.1

جب خداوند یسوع مسیح بیابان میں داخل ہوا۔ خدا کے جلال نے اُسے گھیر لیا اور وہ خدا کی صحبت میں آگیا۔ یوں وہ انسانی کمزوریوں سے بلند و بالا ہو گیا۔ اس کے بعد خداوند کا جلال اس سے علیحدہ ہو گیا تاکہ وہ تنہا آزمائش کا مقابلہ کرے۔ ہر لمحہ اُس پر بھاری تھا کیونکہ انسانی فطرت اُس کشمکش کا مقابلہ کرنے سے جی چراتی تھی جو اُسکا انتظار کر رہی تھی۔ چالیس دن اُس نے فاقہ اور دُعا میں بسر کئے۔ اب وہ بھوک سے نڈھال ہو کر ذہنی اذیت میں مبتلا ہو گیا۔ اُس کا چہرہ ہر ایک بشر سے زائد اور اُس کا جسم بنی آدم سے زیادہ بگڑ گیا تھا۔ یسعیاہ 14:52 ۔۔۔۔ اب موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ابلیس نے سوچا کہ وہ مسیح یسوع پر غالب آسکتا ہے۔ ZU 126.2

اس وقت مسیح کی دُعا کے جواب میں آسمان سے فرشتہ آگیا۔ اور اُس نے بتایا کہ مسیح کا روزہ ختم ہو گیا ہے۔ جیسے خداوند تعالیٰ نے فرشتہ کے ذریعے بزرگ ابرہام کو اپنا پیغام بھیجا کہ لڑکے کو ذبح نہ کرے۔ اسی طرح جب مسیح خداوند بھوک سے جان بحق ہونے کو تھا اُسنے اپنا فرشتہ بھیج کر رہائی دی ورنہ مسیح خداوند رضاکارانہ طور پر موت کی خون آلودہ راہ پر مسلسل گامزن تھا۔ نجات دہندہ بھوک سے بے ہوش ہو ZU 126.3

چکا تھا۔ اور جب اُسے کھانے کی طلب بے حد تنگ کر رہی تھی اُسی وقت ابلیس وارد ہو گیا اور پتھروں کی طرف اشارہ کر کے کہنےلگا کہ اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو ان پتھروں کو کہہ کہ روٹی بن جائیں۔ ZU 126.4

ابلیس یہاں جلالی فرشتے کی صورت میں وارد ہوا مگر اُس کے بات کرنے کے انداز سے ہی پتیہ چل گیا کہ یہ دھوکے باز ہے۔ کیونکہ اُس نے یہ نہ کہا کہ تو خدا کا بیٹا ہے۔ بلکہ “اگر تو خدا کا بیٹا ہے” ان الفاظ میں سے شک کی بُو آتی ہے۔ ان الفاظ میں خوشامد اور در پردہ الزام کا اشارہ ملتا ہے۔ ابلیس چاہتا تھا کہ جو حربہ اُس نے ابتدا میں بزرگ آدم اور حوا کو گرانے کے لئے استعمال کیا تھا وہی حربہ مسیح کو گرانے کے لئَ استعمال کرے۔ “کیا واقعہ خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا؟” پیدائش 1:3 اس طرح اُس کے کلام میں سچائی تو تھی مگر اُس کے کہنے کے انداز میں خدا کے کلام پر شک کا گمان ہوتا ہے۔ وہ اپنے مدعا میں کامیاب ہو گیا جب اپس نے حوا کو کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ خدا نہیں چاہتا کہ آپ وہ پھل کھاو۔ اُس میں بڑی خوبیاں ہیں۔ ایسا نہ کہ تم اُس کی مانند ہو جاو۔ ZU 127.1

پس مسیح کے پاس آکر بھی ابلیس نے ایسے ہی جذبات کا اظہار کیا کہ “ااگر تو خدا کا بیٹا ہے “ان الفاظ سے خود ابلیس غیظ و غضب بھر گیا۔ اُس کے بولنےکے انداز میں گہرا شک پایا جاتا تھا۔۔ اصل میں ابلیس یہ کہہ رہا تھاکہ اگر تو خدا کا بیٹا ہوتا تو کیا وہ اپنے بیٹے کے ساتھ اس طرح کا سلوک روا رکھتا؟ کیا وہ اُسے بیابان میں درندوں کے ساتھ تنہا چھوڑتا؟ کیا وہ اُسے بغیر خوراک، بغیر اپنی صحبت اور آرام کے یونہی چھوڑ دیتا؟ اس کا اشارہ اس طرف تھا کہ تو خدا کا بیٹا نہیں ورنہ وہ تجھے اس حالت میں نہ چھوڑتا۔۔ اس لئے اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو ان پتھروں کو کہہ روٹی بن جائیں تاکہ تو کھاکر تمام مصیبت اور بھوک کے عذاب سے رہائی پائے۔ ZU 127.2

آسمان سے جو آواز آئی تھی کہ “یہ میرا بیٹا ہے۔ جس سے میں خوش ہوں ” متی 17:3۔۔۔ ابھی تک ابلیس کے کانوں میں گونج رہی تھی۔ مگر وہ مصمم ارادہ کئے ہوئے تھا کہ جو اُس سنا تھا اُس کی گواہی نہ دے۔ جو کلام خدا نے کیا تھا وہ مسیح یسوع کا الہی مشن تھا۔ وہ آیا تاکہ ہم انسانوں میں انسان کی صورت میں رہے۔ مگر ابلیس چاہتا تھا کہ وہ خدا کے کلام پر شک کرے۔ اگر ابلیس نجات دہندہ کے ایمان کو متزلزل کرنے میں کامیاب ہو جاتا تو اُس کی فتح یقینی تھی۔ اُس کا خیال تھا کہ بھوک اور اس جسمانی بدحالی کے دوران وہ مسیح کے ایمان کو لرزانے میں کامیاب ہو جائے گا اور پھر اپنے آپ کو بچانے کے لئے ضرور معجزہ کرے گا۔ اگر وہ ایسا کرتا تو نجات کی تجویز ٹوٹ جاتی۔ ZU 128.1

جب سب سے پہلے ابلیس اور ابن اللہ کے درمیان کشمکش شروع ہوئی تھی۔ اُس وقت آسمانی فوجوں کا کمانڈر مسیح یسوع تھا اور باغی فرشتوں کی افواج کا ابلیس۔ آخر کار ابلیس کو شکست فاش ہوئی اور اُسے اُس کے حواریوں سمیت آسمان سے اس دھرتی پر گرادیا گیا۔ مگر اب ان دونوں کی کیفیت برعکس ہو گئی ہے اور ابلیس اسکا زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے۔ ابلیس کا کہنا ہے کہ فرشتوں میں سے قوی تر فرشتہ یعنی مسیح زمین پر گرا دیا گیا ہے۔ نیز مسیح کی حالت بھی یہ تاثر دیتی ہے کہ خدا نے اور انسانوں نے اُسے ترک کر دیا ہے۔ اور اگر وہ پتھروں سے روٹیاں بنا کر معجزہ کر دکھائے تو وہ اُسے الہی مان لے گا۔ اور اس طرح کشمکش کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ZU 128.2

خاموشی سے بغیر جدوجہد کئے یسوع مسیح اُس دھوکے باز کی سننے کو تیار نہ تھا۔ اور نہ ہی خدا کا بیٹا ابلیس کو اپنی الوہیت کا ثبوت دینے کو راضی تھا۔ اور نہ ہی وہ اُسے یہ بتانا چاہتا تھا کہ اُس کی موجود ہ حالت کی وجہ کیا ہے؟ ابلیس کے حکم کی تعمیل سے نہ تو انسان کو اور نہ ہی خدا کو فائدہ پہنچ سکتا تھا۔ اگر مسیح خداوند اُس کے مشورے کو مان بھی لیتا پھر بھی ابلیس اُسے کہتا کہ مجھے کوئی نشان دکھا کہ تو خدا کا بیٹا ہے۔ اگر خداوند یسوع مسیح اُسے کوئی ثبوت فراہم کر بھی دیتا پھر بھی ابلیس کے دل سے بغاوت دُور نہ ہوتی۔ یسوع آیا تاکہ اُسی طرح آزمایا جائے جیسے ہماری آزمائش ہوتی ہے تاکہ ہمارے لئے تابعداری اور ایمان کا نمونہ چھوڑے۔ خداوند مسیح نے کسی موقع پر بھی اپنی ذات کے لئے معجزہ نہ کیا۔ اُس کے تمام حیرت انگیز کام دوسروں کے لئے ہوا کرتے تھے۔ گو مسیح ابتدا سے ہی ابلیس کو جانتا تھا پھر بھی اُس نے اس جنگ میں داخل ہونے کے لئے پس و پیش نہ کی۔ آسمان سے جو آواز آئی تھی وہ اُس کی یاداشت میں محفوظ تھی اور وہی اس کی تقویت کا باعث تھی۔ وہ اپنے باپ کی محب میں قائم رہا اسی لئے وہ آزمائش کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کر سکتا تھا۔ ZU 129.1

مسیح یسوع نے ابلیس کا مقابلہ خدا کے کلام سے کیا۔ “لکھا ہے” اُس نے کہا۔ خدا کا کلام ہی بڑا حربہ تھا جسے اُس نے اس جنگ میں استعمال کیا۔ ابلیس نے مسیح یسوع سے اُس نے اس جنگ میں استعمال کیا۔ ابلیس نے مسیح یسوع سے اُس کی الوہیت کے ثبوت میں کوئی نشان یا معجزہ طلب کیا۔ مگر یسوع المسیح نے معجزہ سے برتر چیز پیش کی “خداوند یوں فرماتا ہے “ایسا نشان تھا جس پر تکرار نہیں ہو سکتی تھی۔ لہذا ابلیس اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہ ہو سکا۔ ZU 129.2

اُس وقت مسیح یسوع نہائت ہی کمزوری محسوس کر رہا تھا جب اُس پر یہ صبر آزما آزمائش آئی۔ گمان غالب تھا کہ ابلیس کو فتح ہو گی۔ کیونکہ ابلیس کا طریقہ واردات ہی ہے کہ جب انسان کمزور ہو اُس وقت اُس پر حملہ کر کے اُسے مغلوب کر لے۔ ZU 129.3

انسان کی جسمانی کمزوری میں اُس کی قوت ارادی بھی کمزور پڑ جاتی ہے۔ نیز خدا میں اُسکا ایمان کم ہو جاتا ہے۔ یوں وہ سب جو کافی عرصہ سے خداوند کے ساتھ وفادار رہے ہوں بہ آسانی مغلوب ہو جاتے ہیں۔ جناب موسی بنی اسرائیل کی چالیس سالہ مسافرانہ زندگی سے عاجز آگیا تھا۔ اُس کا ایمان لرز گیا۔ اور موعودہ ملک کی سرحدوں کے پاس پہنچ کر دلبرداشتہ ہو گیا۔ یہی حال ایلیاہ کا ہوا جو اخی بادشاہ کے سامنے بے خوف و خطر کھڑا رہا، جس نے تمام بنی اسرائیل قوم کا سامنا کیا، جس نے بعل کے ساڑھے چار سو جھوٹے نبیوں کو موت کے گھاٹ اُتارا۔ مگر ایزیبل کے خوف سے جان بچا کر بھاگ نکلا۔ ZU 130.1

یوں ابلیس نے اُس کی جسمانی کمزوری کا فائدہ اُٹھایا۔ ابلیس ابھی تک اُسی طرح ہم انسانوں کو مغلوب کرتا ہے۔ جب کبھی بھی کوئی حالات کے ہاتھوں دکھ پاتا ہے۔ غربت یا پریشانی کا شکار ہوتا ہے اُسی وقت ابلیس اُسے آزمائش میں پھنسا لیتا ہے۔ وہ ہماری سیرت کے کمزور پہلووں پر حملہ آور ہوتا ہے۔ وہ ہمارے ایمان کو متزلزل کرنے کی ازحد کوشش کرتا ہے۔ وہ یہاں تک کرتا ہے کہ ہم خدا کا اعتبار ہی نہ کریں۔ وہ ہمیں اُس کی محبت میں شک کرنے کی آزمائش سے دو چار کرتا ہے۔ لیکن خواہ وہ کچھ بھی کرے اگر ہم اُسکا مقابلہ اس طرح کریں جیسے خداوند مسیح نے کیا تو ہم اُس سے مغلوب نہیں ہوں گے۔ ZU 130.2

جب خداوند مسیح نے آزمانے والے کو فرمایا ZU 130.3

“کہ آدمی صرف روٹی ہی سے جیتا نہ رہے گا بلکہ ہر بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے۔ یہ وہی کلام تھا جو اُس نے چودہ سو سال پہلے بنی اسرائیل سے کیا تھا ” اور تو اُس سارے طریق کو یاد رکھنا جس پر ان چالیس برسوں میں خداوند تیرے خدا نے تجھ کو اس بیابان میں چلایا تاکہ وہ تجھ کو عاجز کر کے آزمائے اور تیرے دل کی بات دریافت کرے کہ اُس کے حکموں کو مانے گا یا نہیں۔ اور اُس نے تجھ کو عاجز کیا بھی اور تجھ کو بھوکا ہونے دیا اور وہ من جسے نہ تو نہ تیرےباپ دادا جانتے تھے تجھ کو کھلایا تاکہ تجھ کو سکھائے کہ انسان صرف روٹی ہی سے جیتا نہیں رہتا بلکہ ہر بات سے جو خداوند کے منہ سے نکلتی ہے وہ جیتا رہے گا۔ استثنا 2:8-3 ۔۔ بیابان میں جب خورش کے تمام ذرائع معدوم تھے خدا نے اپنے لوگوں کے لئے آسمان سے مینہ برسایا بلکہ اُن کی ہر ضرورت وافر مقدار میں پوری کی۔ اس سے اُنہیں سبق سیکھنا تھا کہ جب اُنہوں نے خدا پر بھروسہ رکھا اور اُس کی مرضی پر چلے تو خداوند نے اُنہیں ترک نہ کیا۔ وہ سبق جو نجات دہندہ نے بنی اسرائیل کو سکھایا تھا اُس پر اُس نے خود عمل بھی کیا۔ آڑے وقت میں کلام نے عبرانیوں کی مدد فرمائی۔ اُسی کلام سے یسوع کی حاجت رفع ہوئی۔ اُس نے خداوند کا انتظار کیا تاکہ وہ اُسے سکون دے۔ بیابان میں بھی وہ خدا کے تابع تھا اور وہ ابلیس کی تجویز پر عمل کر کے خوراک حاصل کرنا نہ چاہتا تھا۔ ZU 130.4

آدمی صرف روٹی سے جیتا نہ رہے گا بلکہ ہر بات سے جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے” بعض مسیح یسوع کے پیروکاروں کو اس سطح پر لایا جاتا ہے جہاں وہ خدا کی خدمت نہیں کر سکتے بلکہ دُنیاوی کاروبار کی سر پر ستی کرے ہیں۔ اُس کے دل میں اس طرح کا خدشہ پیدا کیا جاتا ہے کہ اُس نے خدا کی فرمانبرداری کی تو شائد اُس کے ذرائع آمدنی کم ہو جائیں گے۔ ابلیس اُسے باور کرانے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے کہ اُسے اپنے دُنیاوی کاروبار کے لئے خدا میں قائلیت کی ضرورت نہیں۔ مگر یاد رکھئے اس دُنیا میں رہتے ہوئے ہم صرف خدا کے کلام پر ہی بھروسہ رکھ سکتے ہیں۔ “تم پہلے اُس کی بادشاہی اور اُس کی راستبازی کی تلاش کرو تو یہ سب چیزیں بھی تم کو مل جائیں گی ” متی 33:6 ۔۔۔ حتٰی کہ اس زندگی میں خدا سے جُدا ہونا ہمارے سے کسی طرح بھی مفید نہیں۔ جب ہم خدا کے پاک کلام کی قوت کو جان جاتے ہیں تو ہمیں اپنی زندگیوں کو بچانے یا خوراک حاصل کرنے کے لئے ابلیس کی تجاویز پر عمل پیرا ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ بلکہ ہمارا صرف یہ سوال ہونا چاہیے کہ “خدا کا حکم کیا ہے” اور اس کے لئے اُس نے کیا وعدہ کر رکھا ہے؟ یہ جان کر ہم خدا کے تابع فرمان رہیں گے اور اُس میں اپنا مکمل بھرسہ رکھیں گے۔ ZU 131.1

آخری کشمکش میں جو خدا سے وفادار ہیں وہ دیکھیں گے کہ تمام زمینی امداد کا یکسر خاتمہ ہو جائے گا۔ چونکہ وہ زمینی حاکموں کے کہنے پر خدا کی تابع داری سے انحراف نہیں کریں گے اس لئے اُنہیں خریدنے یا بیچنے سے منع کر دیا جائے گا۔ مکاشفہ 11:13-17 ZU 132.1

مگر جو تابع فرمان فرمان رہیں گے اُنہیں یہ وعدہ دیا گیا ہے “وہ بلندی پر رہے گا۔ اُس کی پناہ گاہ پہاڑ کا قلعہ ہو گا اُس کو روٹی دی جائے گی۔ اُس کا پانی مقرر ہو گا۔ یسعیاہ 16:33 ۔۔۔ اسی وعدہ پر خداوند کے بچے قائم رہیں گے۔ اور جب زمین ویران ہو جائے گی پھر بھی اُن کو روٹی ملے گی اور وہ زندہ رہیں گے۔ ZU 132.2

“وہ آفت کے وقت شرمندہ نہ ہوں گے اور کال کے دنوں میں آسودہ رہیں گے زبور 19:37 ۔۔۔ حبقوق نبی آنے والے اوقات پر نظر کرتے ہوئے کلیسا کے ایمان کا اظہار کرتا ہے۔ “اور تاک میں پھل نہ لگے اور زیتون کا حاصل ضائع ہو جائے۔ اور کھیتوں میں کچھ پیداوار نہ ہو اور بھیڑ خانے سےبھیڑیں جاتی رہیں۔ اور طویلوں میں مویشی نہ ہوں تو بھی میں خداوند سے خوش رہوں گا اور اپنے نجات بخش خدا سے خوش وقت ہوں گا” حبقوق 17:3-18 ZU 132.3

ہمارے خداوند پر جو پہلی آزمائش آئی اُس سے ہم سب اشتہا اور اپنے جذبات پر ضبط کرنے کا سبق سیکھیں۔ ہر زمانہ میں یہ جسمانی آزمائش انسان کی بے حیائی اور بدحالی کا سبب رہی ہے۔ بد پرہیزی کے ذریعے ابلیس انسانی روحانی، ذہنی اور اخلاقی قوا کو تباہ کرنا ہے جو خداوند خدا نے انسان کو ودیعت کر رکھی ہیں اور یہ نہائت ہی بیش قیمت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان ابدی چیزوں کی قدرومنزلت سے بے بہرہ رہتا ہے۔ بُری رغبت کی غذا کے سبب خدا کی شیبہ انسان میں بحال نہیں ہو رہی۔ ZU 133.1

بیماری، عُسرت، بدحالی اور پیٹو پن جو مسیح یسوع کی پہلی آمد کے وقت دُنیا میں موجود تھی مسیح یسوع کی آمد ثانی کے وقت بھی موجود پائی جائے گی۔ بلکہ یسوع مسیح نے بتایا کہ اخیر زمانہ میں لوگوں کی حالت بالکل وہی ہو گی جو نوح کے طوفان سے پہلے تھی اور جو سدوم عمورہ کی تھی۔ انسان کا ہر خیال بدی کی طرف مائل ہو گا اور وہ اخیر زمانہ ہمارا زمانہ ہے۔ ہمیں یسوع کے فاقہ کرنے کا سبق سیکھنا چاہیے۔ اُس کے نمونہ سے سیکھتے ہوئے ہمیں اپنے جذبات اور بے مہار کھانے پینے کی عادت پر ضبط کرنا لازم ہے۔ نیز اپنے جذبات اور اشتہا کو خدا کی مرضی کے زیر سایہ لانا ہے۔ ZU 133.2

ہم اپنی زوال پذیر فطرت پر قابو پائیں۔ اسی کے ذریعے ابلیس ہم پر آزمائش لاتا ہے۔ خداوند مسیح جانتا تھا کہ ابلیس ہر شخص کے پاس آئے گا اور اُن کمزوریوں کا فائدہ اُٹھائے گا جو ہم نے وراثت میں پائی ہیں۔ اور وہ تمام لوگ جن کا بھروسہ خدا میں نہیں اُنہیں اپنے جال میں پھنسا لے گا۔ لیکن ہمارا خدا ہمارے آگے آگے چلتا ہے تاکہ ہمیں فتح سے ہمکنا کرے۔ اُس کا یہ منشا نہیں کہ ہم ابلیس کے ساتھ جنگ کرکے شکست کا منہ دیکھیں۔ وہ ہمیں ابلیس کے حملوں میں پست ہمت اور دلگیر نہیں ہونے دے گا۔ بلکہ اُس کا کہنا ہے کہ “خاطر جمع رکھو میں دُنیا پر غالب آیا ہوں” یوحنا 33:16 ZU 133.3

وہ تمام لوگ جو اشتہا کی آزمائش سے دو چار ہیں اُنہیں آزمائش کے بیابان میں نجات دہندہ کی طرف تکنا چاہیے۔ اُس کی اذیت کو صلیب پر دیکھیں جس نے کہا “میں پیاسا ہوں” اُس نے وہ سب کچھ برداشت کیا جو ہمارے لئے بھی برداشت کرنا ممکن ہے۔ اُس کی فتح ہماری فتح ہے۔ ZU 134.1

خداوند یسوع مسیح نے اپنے آسمانی باپ کی حکمت اور طاقت پر بھروسہ کیا۔ اُس نے فرمایا “خداوند خدا میری حمایت کرے گا اور اس لئے میں شرمندہ نہ ہوں گا۔ اور اسی لئے میں نے اپنا منہ سنگ خار کی مانند بنایا اور مجھے یقین ہے کہ میں شرمسار نہ ہوں گا۔ مجھے راستباز ٹھہرانے والا نزدیک ہے۔ کون مجھ سے جھگڑا کرے گا؟ آو ہم آمنے سامنےکھڑے ہوں۔ میرا مخالف کون ہے؟ وہ میرے پاس آئے۔ دیکھو خداوند خدا میری حمایت کرے گا۔ کون مجھے مجرم ٹھہرائے گا؟ دیکھ وہ سب کپڑے کی مانند پُرانے ہو جائیں گے۔ اُن کو کیڑے کھا جائیں گے۔ تمہارے درمیان کون ہے۔ جو خداوند سے ڈرتا اور اُس کے خادم کی باتیں سنتا ہے؟ جو اندھیرے میں چلتا اور روشنی نہیں پاتا وہ خداوند کے نام پر توکل کرے اور اپنے خدا پر بھروسہ رکھے” یسعیاہ 7:50-10 ZU 134.2

مسیح خداوند نے مزید فرمایا “دُنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اسکا کچھ نہیں” یوحنا 30:14۔۔۔ یسوع میں کوئی بھی ایسی چیز نہ تھی جو ابلیس کی باتوں اور مکاری پر کان دھرتی۔ اُس نے اپنے ذہن میں بھی آزمائش کو داخل ہونے نہ دیا۔ اُس نے اپنے گمان میں بھی گناہ کو داخلہ نہ دیا۔ خداوند ہمارے لئے بھی یہ کر سکتا ہے۔ اُس کی بشریت الوہیت کے ساتھ متحد تھی۔ روح القدس جو اُس میں بسا ہوا تھا ابلیس کے ساتھ جنگ کرنے کے لئے موزوں اور کافی تھا۔ وہ آیا تاکہ ہمیں بھی اُس الہی فطرت کا حصہ بنا دے۔ جب تک ہم ایمان کے وسیلہ اُس سے جڑے رہتے ہیں اُس وقت تک گناہ ہم پر حکومت نہیں جتا سکتا۔ ZU 134.3

گناہ پر ہم کیوں کر قابو پا سکتے ہیں؟ یسوع مسیح نے ہمیں اپنا نمونہ دے کر دکھا دیا ہے۔ ابلیس کے ساتھ کشمکش کے دوران مسیح خداوند کس طرگ ابلیس پر غالب آیا؟ خدا کے کلام کے ذریعے۔ ابلیس کی ہر آزمائش کی مزاحمت کرتے ہوئے مسیح نے کہا” یہ لکھا ہے” ہمیں بھی کلام کے وسیلہ قیمتی وعدے دیئے گئے ہیں۔ اسی کلام کی بدولت ہم الہی فطرت کا حصہ بن سکتے ہیں۔ “جن کے باعث اُس نے ہم سے قیمتی اور نہائت بڑے وعدے کئے تاکہ اُن کے وسیلہ سے تم اُس خرابی سے چھوٹ کر جو دُنیا میں بُری خواہش کے سبب سے ہے ذات الہی میں شریک ہو جاو۔ 2 پطرس 4:1۔۔۔۔ خدا کے پاک کلام میں جتنے بھی وعدے ہیں وہ سب ہمارے لئے ہیں۔ ہر بات جو خدا کے منہ سے نکلتی ہے اُس سے ہم زندہ رہتے ہیں “جب ہم پر آزمائش حملہ آور ہوتی ہے۔ اُس وقت حالات یا اپنی کمزوری پر نگاہ نہ کریں بلکہ خداوند خدا کے کلام کی قدرت کی طرف دیکھیں۔ کلام مقدس کی تمام طاقت، تمام قدرت صرف آپ کے لئے ہے۔ ZU 135.1

میں نے تیرے کلام کو اپنے دل میں رکھ لیا ہے تاکہ میں تیرے خلاف گناہ نہ کروں۔ انسانی کاموں میں تیرے لبوں کے کلام کی مدد سے میں ظالموں کی راہوں سے باز رہا ہوں “زبور 4:119، زبور 4:17 ZU 135.2