زمانوں کی اُمنگ
باب نمبر 36 - ”ایمان سے چھونا“
گراسینیوں سے واپس مغربی کنارے پر پہنچنے کے بعد یسوع نے دیکھا کہ اُس سے ملنے کے لئے بہت بڑی بھیڑ جمع ہے۔ اُنہوں نے یسع کو پُر تپاک خوش آمدید کہا۔ وہ اُنہیں تعلیم دینے اور شفا بخشنے کے لئے تھوڑی دیر سمندر کنارے ٹھہرا اور اُس کے بعد متی محصول لینے والے کے گھر ضیافت کے لئے سدھارا۔ یہاں اُسے ایک شخص یائر نامی ہیکل کا سردار ملا۔ یہودیوں کا یہ سردار بڑی پریشانی کے عالم میں تھا۔ اُس نے یسوع کے قدموں میں گر کر منت کی کہ میری چھوٹی بیٹی مرنے کو ہے تو آکر اُس پر ہاتھ رکھ تاکہ وہ اچھی ہو جائے اور زندہ رہے” مرقس 23:5۔۔۔یسوع فوراً اُس کے ساتھ اُس کے گھر کی طرف چل پڑا۔ بیشک شاگردوں نے یسوع کے کئی معجزات دیکھے تھے۔ مگر وہ اس بات پر حیران تھے کہ یسوع کیوں کر اس مغرور شرع کے عالم کے ساتھ چل پڑا ہے۔ تاہم وہ بھی اپنے آقا کے ہمراہ چل پڑے۔ اُس کے ساتھ بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو معجزہ دیکھنے کے مشتاق تھے۔ یائر کا گھر بہت دور نہ تھا مگر یسوع اور اُسکے ساتھی دھیرے دھیرے چل رہے تھے۔ کیونکہ بھیڑ اُس کے چاروں طرف اُسے گھیرے ہوئے تھی۔ جوں جوں دیر ہو رہی تھی باپ کے صبر کا پیالا لبریز ہوتا جارہا تھا مگر یسوع بدستور اُن دُکھیوں کو راحت، آرام اور شفا دیتا جارہا تھا جو اُس کی راہ میں آ جاتے۔ جب وہ ابھی راہ میں ہی تھے۔ کسی نے خبر دی کہ تیری بیٹی مر گئی ہے۔ اب اُستاد کو تکلیف نہ دے۔ یسوع کے کانوں میں بھی یہ خبر پڑی اُس نے یائر سے کہا ”خوف نہ کر، فقط اعتقاد، رکھ وہ بچ جائے گی۔“ ZU 418.1
یائر یسوع کے مزید قریب ہو گیا اور دونوں جلدی جلدی سردار کے گھر پہنچے۔ ماتم کرنے اور بانسلی بجانے والے پہلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے۔ اُن کے آہ و نالے سے تمام فضا سوگوار ہو گئی۔ خداوند یسوع مسیح نے اُنہیں یہ کہہ کر خاموش کیا “تم کیوں روتے ہو۔ لڑکی مری نہیں بلکہ سوتی ہے “مرقس 39:5۔۔۔۔۔ وہ یہ سُن کر ہنسنے لگے کیوں کہ انہوں نے بچی کو موت کی گود میں دیکھ لیا تھا۔ وہ اسلئے ہنسے تاکہ اُسکا مذاق اُڑائیں۔ اس پر یسوع لڑکی کے ماں باپ کے سوا سب کو باہر کر دیا۔ اُس کے ساتھ اُس کے تین شاگرد پطرس، یعقوب اور یوحنا بھی تھے۔ یہ سب لوگ مسیح کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئے جہاں لڑکی مری پڑی تھی۔ یسوع نے لڑکی کا ہاتھ پکڑ کر کہا “میں تجھ سے کہتا ہوں اُٹھ” مرقس 14:5 چنانچہ لڑکی کے بے جان جسم میں زندگی کی لہر دوڑ آئی۔ اُس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی مگر وہ اتنے لوگوں کو اپنے قریب دیکھ کر حیران رہ گئی۔ لڑکی کے ماں باپ نے اُسے زندہ پا کر اپنے بازوں میں بھینچ لیا۔ اور خوشی کے مارے اُن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ZU 419.1
ہیکل کے سردار کے گھر جاتے ہوئے یسوع مسیح کو راستے میں ایک خاتوں ملی جو بارہ برس سے بیمار تھی اور اس بیماری نے اس کی زندگی اجیرن بنا رکھی تھی۔ اُس کو بارہ برس سے خون جاری تھا۔ اور کئی طبیبوں سے بڑی تکلیف اُٹھا چکی تھی اور اپنا سب مال خرچ کر کے بھی اُسے کچھ فائدہ نہ ہوا تھا بلکہ زیادہ بیمار ہو گئی تھی۔ اب تو طبیبوں نے اُس کی بیماری کو لا علاج قرار دے دیا تھا لیکن جب اُس نے سنا کہ یسوع میں شفا بخشنے کی قدرت ہے تو اُس کی بجھی ہوئی اُمید پھر سے زندہ ہو گئی۔ اُسے پورا احساس ہو گیا کہ اگر وہ اُس کے پاس پہنچ جائے تو ضرور شفا پائے گی۔ کمزوری اور بیماری کے باوجود وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ساحل سمندر پہنچی جہاں یسوع تعلیم دے رہا تھا۔ اُس نے یسوع کے پاس جانے کی۔ کوشش کی مگر بھیڑ کے سبب اُس کے پاس نہ پہنچ سکی۔ پھر متی کے گھر بھی اُس نے یسوع کے پاس پہنچنے کی جدو جہد کی مگر ناکام رہی۔ اب وہ سخت مایوس ہو گئی۔ مگر بھیڑ کو چیرتا ہوا یسوع آہستہ آہستہ اُس جگہ آیا جہاں وہ بیمار خاتوں کھڑی تھی۔ ZU 419.2
بیمار خاتوں کے لئے یہ بڑا ہی سُنہری موقعہ تھا۔ وہ اب عظیم طبیب کی حضوری میں تھی مگر اتنے شور شرابے اور افراتفری میں وہ اُس سے کلام نہیں کر سکتی تھی۔ صرف اُسکی جھلک دیکھ سکتی تھی۔ اُسے ڈر تھا کہ یہ موقع بھی ہاتھ سے نہ نکل جائے۔ اسلئے وہ یسوع کی طرف بڑھی اور دل ہی دل میں یہ کہہ رہی تھی کہ “اگر میں صرف اُس کی پوشاک ہی چھولوں گی تو اچھی ہو جاوں گی” مرقس 28:5۔۔۔۔ جونہی یسوع اُدھر سے گزر رہا تھا تو وہ اُس کے پیچھے سے آئی اور اُسکی پوشاک کو چھوا اور فی الفور اُس کا خون بہنا بند ہو گیا اور اُس نے اپنے بدن میں معلوم کیا کہ میں نے اس بیماری سے شفا پائی۔ اُس نے ایمان سے یسوع کو چھوا اور شفا پائی۔ اُس کا مرض جاتا رہا اور وہ مکمل صحت یاب ہو گئی۔ شکر گذار دل کے ساتھ وہ بھیڑ سے نکل کر جانا چاہتی تھی جبکہ یسوع اچانک رُک گیا۔ اور مڑ کر کہا ” کس نے میری پوشاک چھوئی” لوگ یسوع کے اس سوال پر بڑے حیران ہوئے کیونکہ وہ تو اُسے چاروں طرف سے چھو رہے تھے۔ اس پر پطرس نے جواب میں کہا کہ بھیڑ تجھ پر گری پڑتی ہے پھر تو کہتا ہے مجھے کس نے چھوا؟ یسوع نے فرمایا مجھے کسی نے چھوا تو ہے کیونکہ میں نے معلوم کیا کہ قوت مجھ سے نکلی ہے۔ لوقا 45:8-46 ZU 420.1
کیونکہ یسوع مسیح عام چھونے اور ایمان سے چھونے میں بخوبی امتیاز کر سکتا تھا۔ اس لئے یسوع نے بتکرار پوچھا کہ کس نے مجھے چھواہے؟ اس عورت نے جب یہ دیکھا کہ میں خود کو اپنے شافی سے چھپا نہیں سکتی تو اُس کے قدموں میں گر کر اپنی ساری کہانی بیان کی۔ اوریہ بھی کہ اب میں شفا پا گئی ہوں۔ یسوع نے اُسے کہا ” بیٹی، تیرے ایمان نے تجھے اچھا کیا ہے۔ سلامت چلی جا۔ یسوع نے اُس بات کی حوصلہ افزائی نہ کی ‘جیسا کہ بعض تو ہم پرست سمجھتے تھے’ کہ محض پوشاک کو چھونے سے شفا ملی ہے بلکہ یسوع نے واضح طور پر اعلان کیا کہ تیرے ایمان نے تجھے شفا دی ہے۔ ZU 421.1
وہ بھیڑ جو اُس پر گری پڑتی تھی اُن کے چھونے سے کوئی معجزہ وقوع میں نہ آیا۔ لیکن جب ایمان سے بیمار عورت نے چھوا تو وہ شفا پا گئی۔۔۔۔ روحانی چیزوں کا بھی یہی حال ہے۔ رسمی مذہبی کلام اور بغیر ایمان کے دُعا سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اسی طرح یسوع میں نام نہاد ایمان روح کی شفا کا باعث نہیں بنتا۔ نجات بخش ایمان صرف سچائی کو تسلیم کرنا ہی نہیں۔ وہ جو اس انتظار میں رہتا ہے کہ جب مجھے پورا مذہبی علم حاصل ہو گا تو پھر میں ایمان کا اظہار کروں ، یقین جانیے ایسا شخص خدا سے برکات حاصل نہیں کر سکتا۔ اُسی ایمان سے ہمیں فائدہ ہو سکتا ہے جو ایمان ہمیں یسوع کو نجا ت دہندہ تسلیم کرنے کی ترغیب دے، حقیقی ایمان زندگی کا نام ہے۔ ZU 421.2
خداوند یسوع مسیح چاہتا تھا کہ شفا پا جانے والی خاتون خداوند کی برکات کو تسلیم کرے جو اُس نے پائی ہیں۔ انجیل جو ہمیں بخششیں عطا کرتی ہے وہ در پردہ استعمال کرنے کے لئے نہیں بلکہ خداوند چاہتا ہے کہ ہم اُس کی بخششوں اور مہربانیوں کا اقرار بھی کریں۔ ZU 421.3
خداوند فرماتا ہے کہ تم میرے گواہ ہو کہ میں ہی خداوند ہوں” یسعیاہ 10:43-12۔۔۔۔ خداوند یسوع مسیح کو دُنیا پر ظاہر کرنا اور خداوند خدا کی بھلائی کا اقرار کرنا ہم پر فرض ہے۔ جیسے خداوند کے مقدس لوگوں نے ہم پر ظاہر کیا ہے ہمیں اُس کے فضل کو تسلیم کرنا ہے۔ تب ہماری ذاتی گواہی سب سے موثر ہوگی۔ ZU 422.1
جب ہم خداوند کی سرگرم الہی قدرت کو اپنے ذریعے سے ظاہر کرتے ہیں تو اُس کے گواہ ٹھہرتے ہیں۔ ہر ایک شخص کی زندگی دوسرے شخص کی زندگی سے مختلف ہوتی ہے۔ اسی طرح اُن کے تجربات بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ خدا وند چاہتا ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کی فرداً فرداً حمد و ستائش اُس کے حضور پہنچے۔ ZU 422.2
جب دس کوڑھی شفا کے لئے یسوع کے پاس آئے تو اُس نے اُن کو کاہن کے پاس بھیجا تاکہ وہ اُنہیں دیکھے آیا وہ کوڑھ سے شفا پاگئے ہیں یا نہیں؟ جب وہ راہ میں تھے تو دسوں کوڑھی شفا پا گئے صرف ایک کوڑھی خدا وند مسیح کی شکر گذاری کے لئے واپس آیا۔ مگر باقی نو نے اپنی راہ لی۔ آج دُنیا میں کتنے لوگ ہیں جویہی کام کر رہے ہیں۔ خداوند خدا تو ہر لمحہ نسل انسانی کوفیض پہنچانے کے لئے بے شمار کرشمے دکھا رہا ہے۔ وہ بیماروں کو شفا بخش رہا ہے۔ وہ ہمیں آئے روز ایسی آفات سے بچا رہا ہے جنکو ہم دیکھ بھی نہیں سکتے۔ وہ اپنے فرشتوں کو حکم کرتا ہے جو ہمیں دیکھے اور اندیکھے خطرات سے محفوظ رکھتے ہیں۔ زبور 6:91۔۔۔۔۔ خدا نے بنی نوع انسان پر کتنی مہربانیاں کر رکھی ہیں مگر اُنکے دل متاثر نہیں ہوتے۔ اُس نے اُنہیں نجات بخشنے کے لئے آسمان کا بیش قیمت تحفہ دے دیا ہے مگر وہ اُسکی عظیم محبت کو پہچانتے ہی نہیں۔ برعکس اس کے وہ اپنے دلوں کو اُس کے فضل کے لئے بند کر لیتے ہیں اور اُس کے شکر گذار نہیں ہوتے۔ وہ صحرا کی جھاڑیوں کی طرح ہیں جن کے حلق میں پیاس کی وجہ سے کانٹے چبھتے رہتے ہیں۔ اُنہیں بھلائی اور خدا کی مہربانی کی کوئی خبر نہیں۔ ZU 422.3
خدا کی ہر مہربانی کو اپنے ذہن میں تازہ رکھنے سے ہمیں ہی فائدہ ہے۔ اُس سے ایمان مضبوط ہوتا ہے اور خدا سے ہم پہلے سے کہیں زیادہ برکات پاتے ہیں۔ خواہ خدا سے ہمیں چھوٹی سے چھوٹی برکت بھی کیوں نہ ملی وہ دوسروں کی بڑی بڑی برکات کی نسبت ہمیں زیادہ حوصلہ عطا کرتی ہے۔ دوسروں کا پختہ ایمان اور حاصل کردہ برکات ہمارے لئے کیوں کر اتنا حوصلہ بڑھا سکتی ہیں جتنی وہ برکات جو ہمیں حاصل ہیں۔ ZU 423.1
وہ روح جو خدا کے فضل کا جواب دیتی ہے۔ وہ اُس باغ کی مانند ہے جسے سیراب کیا گیا ہو ۔ اُس کی صحت تیزی سے بحال ہو گی۔ اُس کا نور ظلمت میں سے چمکے گا اور خداوند کا جلال اُس پر جلوہ گر ہو گا۔ آئیے ہم خداوند کی مہربانیوں کو یاد کریں اور اُس کی بے شمار رحمتوں کو بھول نہ جائیں۔ بنی اسرائیل کی طرح ہم اپنے پتھروں کو گواہی کے لئے نصیب کریں اور جو کچھ خداوند نے ہمارے لئے کیا ہے اُن پر کندہ کریں۔ اور ماضی کی حفاظت اور مہربانیوں کو یاد کرتے ہوئے شکر گذار دل کے ساتھ کہیں “خدا کی سب نعمتیں جو مجھے ملیں میں اُن کے عوض میں اُسے کیا دوں؟ میں نجات کا پیالہ اُٹھا کر خداوند سے دُعا کروں گا۔ میں خداوند کے حضور اپنی منتیں اپنی ساری قوم کے سامنے پوری کروں گا۔ “زبور 12:116-14 ZU 423.2