زمانوں کی اُمنگ
باب نمبر 31 - ”پہاڑی واعظ“
خداوند یسوع مسیح کبھی بھی شاگردوں کو تنہا کلام نہیں سناتا تھا۔ اور نہ ہی کبھی اُسنے اُن سامعین کا انتخاب کیا جو زندگی کی راہ سے واقف تھے۔ بلکہ اُس کا کام تو یہ تھا کہ غافلوں اور گنہگاروں تک رسائی کرے۔ وہ صداقت کے اسباق تاریک سوچ و بچار تک پہنچاتا۔ وہ تو خود صداقت تھا اور برکت دینے کے لئےاُس کے بازو ہر وقت ہر ایک کے لئے کھلے رہتے تھے۔ وہ حوصلہ افزائی، تنبیہ اور التماس کے کلام سے ہر ایک کے حوصلے بلند کرنے کا خواہاں تھا۔ پہاڑی وعظ جو خصوصاً شاگردوں کے لئے تھا اُسے بھی اُس نے بھیڑ کی موجودگی میں پیش کیا۔ ZU 359.1
رسولوں کی مخصوصیت کے بعد یسوع ساحل سمندر کی سیر کو چلا گیا۔ جہاں الصبح ہی بھیڑ جمع ہوتا شروع ہو گئی تھی۔ عام ہجوم کے علاوہ وہاں گلیل اور یہودہ کے شہروں سے بھی لوگ آئے۔ حتٰی کہ یروشیلم سے بھی لوگ یسوع کی منادی سننے آئے۔ وہاں ادومیہ سے اور یردن کے پار اور صور اور صیدا کے آس پاس سے بھی ایک بڑی بھیڑ اُس کی سننے اور اپنی بیماریوں سے شفا پانے کے لئے آ پہنچی۔ ناپاک روحوں سے دُکھ اُٹھانے والے اچھے کئے گئے اور سب لوگ اُسے چھونے کی کوشش کرتے تھے کیونکہ قوت اُس سے نکلتی اور سب کو شفا بخشتی تھی۔ مرقس 8:3، لوقا 17:6-19 ZU 359.2
جہاں یسوع کھڑا تھا سمندر کا وہ ساحل بھیڑ کے لئے ناکافی تھا۔ کیونکہ جو لوگ یسوع کا کلام سننا چاہتے تھے ناکافی جگہ اور بہت بڑے اجتماع کے سبب سُننے سے قاصر تھے۔ چنانچہ یسوع واپس پہاڑی کے پہلو میں چلا گیا جہاں بھیڑ آسانی سے بیٹھ سکتی تھی۔ وہاں جا کر وہ خود پہلے گھاس پر بیٹھ گیا۔ شاگردوں اور اُس بڑی گروہ نے بھی یسوع کی پیروی کی اور کلام سننے کے لئے گھاس پر بیٹھ گئی۔ شاگرد ہمیشہ یسوع کے قریب بیٹھا کرتے تھے۔ بھیڑ بھی کوشش کر کے مسلسل یسوع کی قربت حاصل کرنے میں جدوجہد کرتی رہتی تھی۔ جو کیف شاگردوں کا یسوع کے قریب ہو کر بیٹھنے کا مقصد یہ ہوتا تھا وہ اُس کی ہر بات کو بخوبی سن سکیں اور اُس کا کلام رائیگاں نہ جائے ۔ اور جو سچائیاں وہ پیش کرتا ہے اُن کو سن اورسمجھ کر دُنیا کی حدوں تک پہنچائیں۔ ZU 360.1
شاگردوں نے بھانپ لیا کہ آج کچھ غیر معمولی واقعہ ہونے کو ہے اسلئے وہ یسوع مسیح کے اور بھی قریب ہو کر بیٹھ گئے۔ اُنہیں پورا وثوق تھا کہ خدا کی بادشاہی ابھی قائم ہوا چاہتی ہے اور یسوع ابھی اسکا اعلان کرنے کو ہے۔ بھیڑ بھی یہی توقع کرتی تھی۔ کیونکہ اُن کے چہروں سے اندازہ کیا جاسکتا تھا کہ وہ کس قدر اس بارے سنجیدہ اور مشتاق ہیں۔ جونہی لوگ سرسبز پہاڑی کے پہلو میں براجماں ہو گئے اور یسوع کے کلام کی انتظار کرنے گئے اُن کے دل مستقبل کی جلالی بادشاہت کے تصورات سے معمور ہو گئے۔ وہاں فقیہ اور فریسی بھی تھے جو اُس دن کی انتظار میں تھے جب وہ نفرت انگیز رومی حکومت کا تختہ اُلٹا کر خود شاہی تخت پر جلوہ افروز ہوں۔ جو وہاں غریب غربا بیٹھے تھےوہ سوچتے تھے کہ یسوع کی بادشاہی آتے ہی ہمارے لئے بھلے دن آجائیں گے۔ ہم عالی شان محلوں کے وارث ہو سکیں گے۔ ہمارے بال بچے بھی پیٹ بھر کر کھانا کھائیں گے اور اُن کے تن پر بھی قیمتی لباس ہو گا۔ وہ سوچتے تھے کہ یسوع رومی حکومت کی دھن دولت چھین کر ہم غریبوں کے حولے کر دے گا۔ ہر ایک کا دل خوشی سے معمور تھا کہ خدا اپنے وعدہ کے مطابق بنی اسرائیل کو قوموں میں سرفراز کرے گا۔ اور یروشیم دُنیا بھر کی مملکتوں کا دارلخلافہ بن جائے گا۔ ZU 360.2
پہاڑی وعظ کے ذریعے اُس نے اُس نظرئیے کو ختم کرنا چاہا جو غلط تعلیم کی وجہ سے مروج ہو چکا تھا۔ اور دوسری طرف وہ اپنے سامعین کو آسمانی بادشاہت کے حقئق کھول کر بتانا چاہتا تھا کہ اُس کی کیا خصوصیات ہیں اور جو کچھ وہ پہلے جانتے تھے۔ یسوع نے اُنہیں اُس سے بہتر چیز دینا چاہی۔۔۔۔ یہ بتانے کی بجائے کہ آسمان کی بادشاہی دنیاوی بادشاہت کے مقابلہ میں کسقدر اعلےٰ و ارفع ہے اُسنے اُن کو اُس میں داخل ہونے کی شرائط بتانا ضروری سمجھا۔ خدا کی بادشاہت کے بنیادی اصولوں کے سمجھنے کی جتنی ضرورت اُن لوگوں کو تھی آج ہمیں بھی اُسی قدر اُن اصولوں کو سمجھنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ ZU 361.1
پہاڑ پر یسوع کا کلام لوگوں کے لئے برکت کا کلام تھا۔ اُس نے کہا جو اپنی روحانی غربت کو تسلیم کرتا اور نجات کی ضرورت بھی محسوس کرتا ہے ہو مبارک ہے۔ انجیل کی خوشخبری غریبوں کی دی گئی نہ کہ اُن کو جو اپنی روحانی حالت پر غرور کرتے تھے۔ ZU 361.2
انجیل کی خوشخبری اُن کو نہ دی گئی جو سمجھتے تھے کہ ہم دولت مند ہیں مگر حقیقت میں وہ کچھ بھی نہیں تھے۔ انجیل کی خوشخبری اُن کو دی گئی جو حلیم اور دل کے ؟؟؟؟ اور جو روح کے غریب تھے۔ اُن کے ہی گناہ معاف کرنے کے لئے یسوع کے خون کا واحد چشمہ جاری ہوا۔ ہماری نجات کی واحد اُمید مسیح کی راستبازی میں پائی جاتی ہے۔ جب تک انسان اپنی کمزوریوں کو جان کر اُن کا قائل نہیں ہو گا اُس وقت تک خدا بھی اُس کے لئے کچھ نہیں کرتا۔ جب انسان اپنی خطاوں کا اقرار کرتا ہے تو خداوند بھی اُسے نجات کی بخشش عطا کر دیتا ہے۔ وہ روح جو یہ محسوس کرتی ہے کہ اُسے خداوند کی ضرورت ہے، خداوند بھی اُس سے کچھ باز نہ رکھے گا۔ “کیوں کہ وہ جو عالی اور بلند ہے اور ابدا آباد تک قائم ہے جسکا نام قدوس ہے یوں فرماتا کہ میں بلند اور مقدس مقام میں رہتا ہوں اور اُس کے ساتھ بھی جو شکستہ دل اور فروتن ہے تاکہ فرتنوں کی روح کو زندہ کروں اور شکستہ دلوں کو حیات بخشوں، یسعیاہ 15:57 ZU 361.3
“مبارک ہیں وہ جو غمگین ہیں کیونکہ وہ تسلی پائیں گے” یسوع مسیح یہ نہیں سکھا رہا کہ غمگین ہونے میں گناہ کی معافی کی قدرت پائی جاتی ہے۔ یسوع مسیح کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی نوحہ کنا ں رہے۔ ہمیں اپنے گنہگار ہونے پر افسوس تو کرنا چاہیے مگر ہمیں اس بات پر خوشی منانا ضرور ہے کہ ہم خدا کے بچے اور بچیاں ہیں ہم اسلئےغم کھاتے ہیں کیونکہ ہماری اپنی بدیاں ایسے حالات پیدا کر دیتی ہیں کہ ہم غم کھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ تو ہماری بدیوں کے نتائج ہیں۔ ایسا غم توبہ نہیں لاتا۔ گناہ کے لئے حقیقی غم روح القدس لاتا ہے نہ کہ ہمارے بُرے کام۔ اور پھر یہ غم ہمیں صلیب کے قدموں میں لاتا ہے۔ ہمارا ہر گناہ یسوع کو کاری زخم لگاتا ہے۔ اور جب ہم اُس پر نگاہ کرتے ہیں جسے ہم نے اپنے گناہوں سے زخمی کیا ہے تو ہمارے دل میں تم پیدا ہوتا ہے۔ ایسا غم یقیناً ہمیں گناہ ترک کرنے کی ترغیب دے گا۔ دُنیا والے شائد اس طرح کے غم کو کمزوری خیال کریں مگر یہ وہ قوت ہے جو شکستہ دل کو خداوند کے ساتھ ملا دیتی ہے اور وہ پھر کبھی خدا سے علیحدہ نہیں ہوتا۔ ازاں بعد خداوند کے پاک فرشتے اس روح کے پاس وہ بخششیں واپس لاتے ہیں جن سے یہ روح اپنی سخت دلی کے سبب سے محروم ہو گئی تھی۔ یہ غم ایسی خوشی لاتی ہے جو روح میں زندہ چشمہ بن جاتا ہے۔ “صرف اپنی بدکرداری کا اقرار کر کہ تو خداوند اپنے خدا سے عاصی ہو گئی۔ میں تجھ پر مہر کی نظر کروں گا کیونکہ خداوند فرماتا ہے میں رحیم ہوں میرا قہر دائمی نہیں” یرمیاہ 13:3، 12- “خدا وند خدا نے صیون کے غمزدہ کے لئے راکھ کے بدلے شہرہ اور ماتم کی جگہ خوشی کا روغن اور اُداسی کے بدلے ستائش کا خلعت خداوند نے مقرر کر رکھا ہے۔ “یسعیاہ 3:61 ZU 362.1
وہ جو مصیبت اور آزمائش میں غم کھاتے ہیں اُن کے لئے تسلی ہے۔ گناہ میں ؟؟؟؟؟ رہنے کی نسبت دُکھ اور لعن طعن برداشت کرنا بہتر ہے۔ اذیتوں کے باعث خداوند ہم پر ظاہر کرتا ہے کہ ہماری سیرت میں کہاں داغ دھبہ ہے تاکہ ہم اُس کے فضل سے اُس کمزوری پر غالب آسکیں۔ نیز جن کمزوریوں سے ہم نا آشنا ہوتے ہیں اُن کا ہم پر انکشاف ہو جاتا ہے۔ ہم پر آزمائشیں آتی ہیں کہ آیا ہم خدا کی تنبیہ کو قبول کرتے ہیں یا نہیں۔ اس دوران ہم نہ باغی ہوں نہ بڑبڑائیں بلکہ ہمارے دل خداوند میں حلیم بنیں۔ اُس کی راہیں شاید ہمیں تاریک اور غیر طرب دکھائی دیں۔ مگر یاد رکھیے خداوند کی راہیں رحم میں ہیں جن کا انجام نجات ہے۔ ایلیاہ اُس وقت اچھی طرح نہیں سمجھ رہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے جب اُسنے بیابان میں خدا سے درخواست کی کہ مجھے موت دے۔ خدانے اپنے رحم سے اُسے اُس کے کہنے پر موت سے ہمکنار ن نہ کر دیا کیوں کہ ابھی ایلیاہ نے بہت سا کام انجام دینا تھا۔ اور جب اُس کا کام مکمل ہو گیا تو خدا نے اُسے بیابان میں تنہا مایوسی کے عالم میں مرنے نہ دیا۔ نہ اُسے خاک میں جانا پڑا بلکہ خدا نے اپنا جلالی رتھ بھیج کر اسے اپنے تخت کے پاس بُلا لیا۔ جو لوگ غمگین ہیں اُن کے لئے خدا کا یہ کلام ہے “میں نے اُس کی راہیں دیکھیں اور میں ہی اُسے شفا بخشوں گا۔ میں اُس کی رہبری کرونگا اور اُس کو اور اُس کے غمخواروں کو پھر دلاسا دوں گا۔ “اُس وقت کنواریاں اور پیروجواں خوشی سے رقص کریں گے۔ کیوں کہ میں اُن کے غم کو خوشی سے بدل دوں گا اور اُن کو تسلی دے کر غم کے بعد شادمان کروں گا” یسعیاہ 18:57، یرمیاہ 13:13 ZU 363.1
“خداوند اگرچہ بلند و بالا ہے تو بھی خاکسار کا خیال رکھتا ہے” زبور 6:138 وہ سب جو مسیح میں روح کی حلیمی دکھاتے ہیں خداوند اُنہیں عزیز رکھتا ہے۔ دُنیا بیشک اُنہیں نفرت اور حقارت کی نگاہ سے دیکھے مگر خدا کی نظر میں اُن کی بڑی قدر ہے۔ آسمانی بارگاہوں میں صرف حکمت والوں، عظیم لوگوں، دوسروں کی بھلائی کر نے والوں، خداکی خدمت میں مصروف یا خدا کے لئے غیرت اور جوش و خروش رکھنے والوں کی ہی بازیابی نہیں ہو گی۔ بلکہ اُن کی بھی جو دل کے غریب ہیں۔ جو یسوع کو اپنے دل میں اُتارنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ جو حلیم ہیں اور اُن کی خوشی اسی میں ہے کہ خدا کی مرضی کو پورا کریں۔ یہی روحیں ہیں جو خدا کی بارگاہوں میں مقبولیت حاصل کریں گی۔ ان کا شمار اُن میں ہو گا جنہوں نے اپنے جامے برہ خون میں دھو کر سفید کئے ہیں۔ “اسی سبب سے یہ خدا کے تخت کے سامنے ہیں اور اُس کے مقدس میں رات دن اُس کی عبادت کرتے ہیں اور جو تخت پر بیٹھا ہے وہ اپنا خیمہ اُن کے اوپر تانیگا” مکاشفہ 15:7 ZU 364.1
“مبارک ہیں وہ جو راستباز کے بھوکے اور پیاسے ہیں کیونکہ وہ آسودہ ہوں گے” متی 6:5۔۔۔۔ اس بات کا احساس کہ انسان نکما اور خوار ہے یہی چیز اُس کے دل میں راستباری کی بھوک اور پیاس کو جنم دیتی ہے۔ اور خداوند اس خواہش کی قدر کرتا ہے اور انسان کو مایوس نہیں کرتا۔ وہ جو اپنے دل میں یسوع کے لئے جگہ بناتے ہیں وہ اُس کی محبت کا احساس رکھتے ہیں۔ جن کے دل میں خدا کی سیرت اپنانے کی تڑپ ہے وہ آسودہ ہوں گے اگر انسان اپنی نظریں یسوع پر جمائے رکھے تو روح القدس اُس شخص میں خدا کی تشبیہ بحال کرنے تک کام کرتا رہتا ہے۔ “مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے بھوکے اور پیاسے ہیں کیونکہ وہ آسودہ ہوں گے“۔ “مبارک ہیں وہ جو رحم دل ہیں کیونکہ اُن پر رحم کیا جائے گا۔ مبارک ہیں وہ جو پاک دل ہیں کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے” متی 7:5-8۔۔۔ ہر غلیظ خیال روح کو نجس کرتا اور اخلاق کی بربادی کا باعث ٹھہرتا ہے اور روح القدس کی تاثیر کو ختم کرنے کی حتی الوسع کوشش کرتا ہے۔ یہ روحانی رویا کو تاریک کر دیتا ہے تاکہ انسان خدا کی طرف تکنا چھوڑ دیں۔ خدا معاف کرنے پر قادر ہے۔ اس کے باوجود گندے خیالات روح پر دھبہ چھوڑ جاتے ہیں۔ جسے روحانی سچائی درکار ہے اُسے ہر ناپاک خیال اور لچر گوئی سے پرہیز کرنا ہو گا۔ ZU 364.2
خدا وند کا پاک کلام ہمیں جنسی ناپاکی سے آزاد کرتا ہے۔ خود غرضی اور نفس پروری ہمیں خدا سے دور لے جاتی ہے۔ اور جب تک ہم ان باتوں سے علیحدگی اختیار نہ کریں گے ہم یسوع کی محبت سمجھ نہیں پائیں گے۔ حلیم دل اور باوفا روح خدا کو دیکھیں گے۔ “خداوند خداوند رحیم اور مہربان قہر کرنے میں دھیما اور شفقت اور وفا میں غنی” خروج 6:34” مبارک ہیں وہ جو صلح کراتے ہیں کیوں کہ وہ خداکے بیٹے کہلائیں گے” متی 9:5۔۔۔ مسیح یسوع کا اطمینان سچائی کی پیدائش ہے اور یہ خدا کے ساتھ مکمل طور پر ہم آہنگ ہے۔ دُنیا خدا کی شریعت کی دشمن ہے۔ گنہگار اپنے خالق کے دُشمن ہیں اور اس کا حتمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان، انسان کا دشمن ہے۔ مگر زبور نویس بیان کرتا ہے۔ ”تیری شریعت سے محبت رکھنے والے مطمئن ہیں۔ اُن کے لئے ٹھوکر کھانے کا کوئی موقع نہیں“ زبور 165:119۔۔۔۔ انسان اپنا اطمینان خود حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ انسان یا پورے معاشرے کو پاک و مقدس بنانے کی انسانی تجاویز بے سود ہیں۔ کیونکہ اُن کی رسائی دل سے کوسوں دور ہے۔ صرف یسوع مسیح کا فضل ہی حقیقی چین دے سکتا ہے۔ اور جب یہ دل میں جڑ پکڑ لیتا ہے تو بدی کی تمام تجاویز اور جذبات کو مار بھگاتا ہے۔ پھر “کانٹوں کی جگہ صنوبر نکلے گا اور جھاڑی کے بدلے آس کا درخت ہو گا” بیابان اور ویرانہ شادمان ہوں گے اور دست خوشی کرے گا اور نرگس کی مانند شگفتہ ہو گا“ یسعیاہ 13:55، 1:35 ZU 365.1
بھیڑ مسیح کی اس تعلیم سے جو فقیہوں اور فریسیوں کی تعلیم کے برعکس تھی سن کر بڑی حیران ہو گئی۔ لوگ تو یہ سمجھتے تھے کہ مال و دولت دُنیا میں خوشی اور عوام میں عزت افرائی کا باعث ہے۔ کیونکہ اُس زمانہ کے لوگ “ربی” کہلانا پسند کرتے تھے۔ وہ عوام سے توقع کرتے تھے کہ وہ اُنہیں راستباز اور دانشمند قبول کریں۔ اور کسی کی بھی اس طرح عوام میں عزت افزائی خوشی کا تاج مانا جاتا۔ مگر مسیح یسوع نے اُس بھیڑ کے سامنے اعلانیہ کہا کہ ایسے لوگ آدمیوں سے اپنا اجر پا چکے۔ اُس نے مزید فرمایا کہ اُن کے لئے خدا کی بادشاہی میں کوئی اجر نہیں۔ وہ یہ کلام سُن کر اُنگشت بدندان رہ گئے۔ اُنہوں نے ایک دوسرے کی طرف حیرانی اور مشکوک نگاہوں سے دیکھا۔ وہ سوچنے لگے کہ اگر اس شخص کی تعلیم صحیح ہے تو کون نجات پائے گا؟ تاہم وہاں بہتیرے ایسے لوگ موجود تھے جن کا ایمان تھا کہ یہ شخص خدا کی طرف سے ہے اور جو کچھ کہتا ہے وہ روح کی ہدایت کے تحت کہتا ہے۔ یہ واضح کرنے کے بعد کہ حقیقی خوشی کیا ہے اور کس طرح نصیب ہو سکتی ہے یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو حکم دیا کہ اُن کا یہ فرض ہے کہ لوگوں کو خدا کی راستبازی اور ابدی زندگی کی راہ پر گامزن کریں ۔ وہ جانتا تھا کہ اُنہیں اکثر پست ہمتی اور مایوسی کا سامنا کرنا ہو گا۔ اُسے یہ بھی معلوم تھا کہ میری گواہی کی خاطر اُن کی توہین کی جائے گی اور وہ مرتد قرار دئیے جائیں گے۔ اُسے یہ بھی معلوم تھا کہ علیم اشخاص جو اُس کے کلام کو سُن رہے ہیں یہ اُس کی خاطر قیدو بند بلکہ موت کو بھی بخوشی قبول کریں گے۔ ZU 366.1
“مبارک ہیں وہ جو راستبازی کے سبب سے ستائے گئے ہیں۔ کیونکہ آسمان کی بادشاہی اُن ہی کی ہے۔ جب میرے سبب سے لوگ تم کو لعن طعن کریں گے اور ستائیں گے اور طرح کی بُری باتیں تمہاری نسبت ناحق کہیں گے تو تم مبارک ہو گے۔ خوشی کرنا اور نہائت شادمان ہوتا کیوں کہ آسمان پر تمہارا اجر بڑا ہے اسلئے کہ لوگوں نے اُن نبیوں کو بھی جو تم سے پہلے تھے اسی طرح ستایا تھا” متی 10:5-12 ZU 367.1
دُنیا گناہ سے محبت رکھتی ہے جبکہ راستبازی ہے نفرت۔ اسی وجہ سے دُنیا یسوع سے دُشمنی رکھتی تھی۔ وہ سب لوگ جو اُس کی الہٰی اور لامحدود محبت کو قبول کرنے سے گریز کرتے ہیں مسیحیت اُن کے لئے تکلیف دہ عنصر ہے۔ کیونکہ یسوع مسیح کا نور اُس تاریکی کو ہٹا دیتا ہے جو اُن کے گناہوں پر پردہ پوشی کرتا ہے۔ چنانچہ اُنہیں از خود اصلاح کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ کیونکہ جو روح القدس کے زیر سایہ ہوتے ہیں اُن کی جنگ کسی دوسرے کے خلاف نہیں بلکہ خود اپنے وجود سے شروع ہو جاتی ہے ۔ اور جو اپنے گناہوں سے چمٹے رہنے کا تہیہ کر لیتے ہیں ان کی جنگ سچائی اور سچائی کے نمائندگان کے خلاف شروع ہو جاتی ہے۔ ZU 367.2
یوں کشمکش اور نزاع شروع ہو جاتا ہے۔ اور لوگ یسوع کے خادموں کو ایذا دینا شروع کر دیتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خدا کی محبت دُنیا کے ساتھ دُشمنی ہے۔ یسوع کی خاطر اُن کی سرزنش ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ اُسی راہ پر گامزن ہیں جس پر دُنیا کے شریف زادے اور باعزت لوگ اُن سے پہلے گامزن رہ چکے ہیں۔ بے دلی سے نہیں بلکہ خوشی سے اُنہیں ان تکلیفوں کو برداشت کرنا چاہیے۔ ہر آزمائش اُنہیں کندن بننے میں مدد دے گی اور اس قابل بنائے گی کہ وہ اُس کے ساتھ ملکر خدمت انجام دے سکیں ۔ راستبازی کی جنگ میں کشمکش کا ایک اپنا مقام ہے وہ جس پر فتح پانے سے اُن کی خوشی میں اضافہ ہو گا۔ لہٰذا انسانوں کے خوف اور دلجوئی کی پرواہ کئے بغیر خدا کے خادموں کو چاہیے کہ جو خدمت اُن کے سپرد ہے اُسے مردانگی سے پورا کریں۔ ZU 368.1
“تم زمین کے نمک ہو ” یسوع نے فرمایا کہ دُنیا کے مصائب سے بچنے کے لئے آپ دُنیا سے علیحدگی اختیار نہ کرلیں۔ بلکہ آپ کو انسانوں کے درمیان رہنا ہو گا۔ تاکہ خدا کی بچانے والی قدرت “جو نمک” کی علامت ہے برباد ہونے والی دُنیا کو بچا سکے۔ وہ دل جو روح القدس کی تاثیر کا جواب دیتا ہے اُس کے ذریعے سے خدا کی برکات جاری ہوتی ہیں۔ وہ جو خدا کی خدمت کرتے ہیں اگر اُنہیں دنیا سے باہر نکال لیا جائے اور خدا کا روح دُنیا میں نہ بسے تو یہ دُنیا برباد ہونے کے لئے تنہا رہ جائے گی اور ابلیس اپنی من مانی کرے گا۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ابلیس کی سلظنت کا پھل تباہی و بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ لیکن اگر مسیح برائے نام مسیحی ہیں تو اُس نمک کی مانند ہوں گے جو اپنا مزہ کھو چکا ہے۔ ان کی بھلائی کا دُنیا پر کچھ اثر نہ ہو گا۔ بلکہ وہ تو بے ایمانوں سے بھی بدتر ہیں۔ “تم دنیا کے نور ہو” یہودیوں نے سوچا کہ نجات کے تمام فوائد اپنی قوم تک محدود رکھیں۔ لیکن مسیح یسوع نے ان کو بتایا کہ نجات سورج کی روشنی کی علامت ہے ۔ اور یہ روشنی تو تمام دُنیا کے لئے ہے۔ بائیبل کا مذہب ورقوں میں اور نہ ہی گرجا گھر کی چار دیواری میں مقید رہنے کے لئے ہے۔ بائیبل کا مذہب کبھی کبھار پڑھنے اور پھر کتاب مقدس کو بند کرکے رکھ چھوڑنے کا مذہب نہیں۔ یہ تو روز مرہ کی زندگی کی تقدیس کرتا اور ہماری زندگی کے ہر پہلو پر دلالت کرتاہے۔ خواہ یہ کاروبار سے متعلق ہو یا عوام کے ساتھ ہمارے میل جول اور صحبت کے بارے ہو۔ اس میں معاشی، اخلاقی، خاندانی اور مذہبی تمام پہلو مضمر ہیں۔ ZU 368.2
حقیقی سیرت کی نشوونما خارجی عوامل سے نہیں بلکہ باطن سے معرض وجود میں آتی ہے۔ اگر ہم دوسرون کو راستبازی کی راہ پر گامزن کرنے کے متمنی ہیں ۔ تو پہلے ہمیں راستبازی کے اصولوں کو اپنے دل میں جگہ دینی ہو گی۔ مذہبی نظریہ اور ایمان کا اقرار خواہ کتنا ہی پختہ کیوں نہ ہو ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ ہمار عمل ہی ہے جو سچائی کے کلام کو قائم رکھتا ہے۔ مستقل مزاجی، پاکیزہ مذہبی، غیر متزلزل ایمانداری ، وفاداری ، نیکی و بھلائی کی مستعد اور سر گرم روح، خدا ترسی کا نمونہ یہی وہ ذرائع ہیں جن کی وساطت سے یسوع کا نور دُنیا تک پہنچایا جاسکتا ہے۔ ZU 369.1
یسوع مسیح شریعت کی جزیات پر زندگی بسر نہیں کرتا تھا تاہم اُس نے عوام کو یہ تاثر نہ دیا کہ وہ شریعت کے مطالبات کی چنداں پرواہ نہیں کرت۔ اُسےبخوبی علم تھا کہ جاسوسی اسی تاک میں ہیں کہ اُسے کسی بات میں پھنسا کر مجرم ٹھہرائیں۔ اس لئے اُس نے موسیٰ کے ذریعے دیے جانے والے اخلاقی اور رومی ضابطوں کی کبھی بھی خلاف ورزی نہ کی۔ بھلا وہ ان ضابطوں کی کیوں کر مخالفت کرتا جن کو اُس نے خود قائم کیا تھا۔ ہاں البتہ ان ضابطوں کو نظر انداز کیا جن کی یہودیوں نے غلط تفسیر کر رکھی تھی۔ اس کے باوجود اُس نے اپنے شاگردوں کو سختی سے ہدایت کی کہ اُن زندگی بخش سچائیوں کو تھامیں رہیں جو عبرانیوں کو دی گئی تھیں۔ ZU 369.2
فریسی بلا شُبہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ وہ شریعت کے تابع فرمان ہیں مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ شریعت کی روح اور اُس کے اصولات سے بالکل ناواقف تھے۔ اسی لئے وہ یسوع کے کلام کو بدعت سے تعبیر کرتے تھے۔ جب خداوند مسیح نے اُس کوڑے کرکٹ کو دُور کر دیا جو سچائی کو چھپائے ہوئے تھا تو اُنہوں نے گمان کیا کہ اس نے سچائی کو بھی باہر پھینک دیا ہے۔ اسلئے وہ آپس میں کہنے لگے کہ اس کے سامنے شریعت کی کوئی وقعت نہیں۔ مگر یسوع نے اُن کے خیال معلوم کرکے کہا “یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں“۔ متی 17:5 ZU 370.1
فریسیوں نے جو الزامات لگائے تھے یسوع اُن کی یہاں نفی کرتا ہے۔ اُس کا تو مشن ہی یہی تھا کہ دُنیا کو شریعت کے مقدس فریضوں سے اگاہی بخشے جبکہ فریسی اُسے شریعت کو منسوخ کرنے والا قرار دیتے تھے۔ اگر خدا کی شریعت معطل ہو چکی ہوتی تو یسوع مسیح کو ہمارے گناہوں ے نتائج کیوں بُھگتنا پڑتے۔ بلکہ اُس نے خود شریعت کی تابعداری کر کے ہمارے لئے نمونہ چھوڑا۔ خداوند خدا نے انسان کی بہتری کے لئے ہمیں اپنے پاک ضابطے دے رکھے ہیں۔ گناہ سے محفوظ رکھنے کے لئے اُس نے ہمیں راستبازی کے اصولات سے نوازہ ہے۔ شریعت خدا کے خیالات کے اظہار کا ذریعہ ہے۔ اور جب ہم شریعت کو یسوع مسیح میں قبول کرتے ہیں تو یہ ہمارے خیال کا اظہار بن جاتا ہے۔ پھر شریعت ہمیں ارفع و اعلےٰ بنا کر اُن جسمانی خواہشوں اور رغبتوں سے دور ہٹا لیتی ہے جو ہمیں گناہ کرنے پر اُکساتی ہیں۔ خداوند چاہتا ہے کہ ہم خوش و خرم رہیں۔ اسی لئے اُس نے ہمیں اپنی شریعت دی ہے تاکہ اُس کی فرمانبرداری کر کے ہماری خوشی پوری ہو۔ خداوند یسوع مسیح کی پیدائش کے موقع پر فرشتوں نے یہ گیت گایا۔ “عالم بالا پر خدا کی تمجید ہو اور زمین پر اُن آدمیوں میں جن سے وہ راضی ہے صلح” لوقا 14:2 ZU 370.2
خداوند خدا نے کوہ سینا پر جب شریعت دی تو حقیقت میں اُسنے انسان پر اپنی پاکیزہ سیرت کو ظاہر کیا تاکہ انسان اپنی گناہ بھری سیرت کا موازنہ خداوند کی ذات پاک سے کر کے دیکھ لے۔ شریعت دی گئی تاکہ وہ انسان کو اُس کے گناہوں کے بارے قائل کرے اور اُنہیں بتائے کہ تمہیں نجات کی ضرورت ہے۔ “خداوند کی شریعت کامل ہے۔ وہ جان کو بحال کرتی ہے۔ خداوند کی شریعت برحق ہے۔ نادان کو دانش بخشتی ہے۔ “زبور 7:19 ZU 371.1
خداوند مسیح نے فرمایا “جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلیگا جب تک پورا نہ ہو جائے” متی 18:5 آسمان پر ابھی تک سورج چمکتا ہے ٹھوس زمین پر آپ چلتے پھرتے ہیں۔ یہ خدا کے کلام کے گواہ ہیں کہ اُس کی شریعت لا تبدیل اور ابدی ہے۔ زمین و آسمان کا ٹل جانا آسان ہے۔ مگر شریعت کا ایک شوشہ بھی ٹلنے کا نہیں لوقا 17:16 ZU 371.2
خداوند کی شریعت کامل ہے۔ اگر کوئی اس سے متفرق تعلیم دیتا ہے تو وہ بدی سے ہے۔ جو خدا کے احکام کی نافرمانی کرتے ہیں اور آدمیوں کو یہی سکھاتے ہیں وہ یسوع کی طرف سے لعنتی ہیں۔ وہ سب لوگ جو یسوع مسیح کی طرح شریعت کی پیروی کرتے ہیں وہ اُس کے ساتھ ملکر پکارتے ہیں کہ “شریعت پاک ہے اور حکم بھی پاک اور راست اور اچھا ہے” رومیوں 12:7 ZU 371.3
دوسری بات یہ ہے کہ جو شریعت کی عدولی کرتے ہیں وہ ابلیس کے ساتھ ملکر کہتے ہیں کہ شریعت نجس ہے اور اسے ماننا ناممکن ہے۔ یہ ابلیس کے ہی بچگان ہیں جنہوں نے خدا کی شریعت کی سب سے پہلے نافرمانی کی۔ کوئی شخص بھی جو جان بوجھ کر شریعت کے اصولوں کو باطل ٹھہراتا ہے خدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہو سکتا۔ فریسیوں کا دعوے تھا کہ خدا کا کلام اُن کی ذاتی ملکیت ہے اس کے باوجود اُن میں خود غرضی، کینہ و خصومت، لالچ اور ریا کاری بدرجہ غائت پائی جاتی تھی۔ اُن کا گمان تھا کہ اُن کا مذہب دُنیا کا سب سے بڑا مذہب ہے تاہم اُن کی نام نہاد راسخ الاعتقادی نے جلال کے بادشاہ کو مصلوب کر دیا۔ ZU 372.1
وہی خطرہ آج بھی موجود ہے۔ بہت سے لوگ سوچتے ہیں کہ چونکہ ہم مذہبی عقائد کو اچھی طرح سمجھتے اور بیان کر سکتے ہیں اس لئے ہم مسیحی ہیں۔ مگر اُنہوں نے صداقت کو اپنی عملی زندگی میں آنے نہیں دیا۔ نہ وہ صداقت کو جانتے ہیں اور نہ ہی اُس میں یقین رکھتے ہیں۔ اسلئے اُنہیں وہ قدرت اور فضل حاصل نہیں جو صداقت کے تقدس سے میسر آتا ہے۔ انسان سچائی میں ایمان تو رکھ سکتے ہیں۔ لیکن اگر اُن میں مخلصی، مہربانی، صبروتحمل نہ آئے تو یہ سب کچھ دُنیا اور خود اُن کے لئے لعنت کا موجب ہے۔ ZU 372.2
وہ راستبازی جس کا درس خداوند یسوع مسیح نے دیا خدا کی ظاہر کردہ مرضی کے ساتھ دل اور زندگی دونوں کی مطابقت موفقت اور مشابہت کا نام ہے۔ گنہگار انسان خدا میں ایمان اور اُس کے ساتھ اپنا تعلق قائم رکھنے سے ہی راستباز سکتے ہیں۔ اس کے بعد ہی حقیقی خدا ترسی خیالات کی سرفرازی اور شرافت کی زندگی نصیب ہو گی۔ اور بیرونی مذہبی وضع قطع مسیحی باطنی پاکیزگی کے ساتھ منسلک ہو جائے گی۔ ZU 372.3
خداوند مسیح نے دس احکام کی شریعت کے ہر ایک حکم کی علیحدہ علیحدہ اہمیت، وسعت اور گہرائی بیان کی۔ نیز بغیر کم وہ کاست اُن کے دور رس اصولوں پر روشنی ڈالی۔ اس کے علاوہ یہودیوں کی ظاہری تابعداری دکھانے کی سنگین غلطی کی نشاندہی کی۔ اُس نے واضح طور بتایا کہ بُری نظر یا خیال خدا کی شریعت کی نافرمانی ہے۔ اُس نے فرمایا وہ جو بے انصافی کرتا ہے شریعت کو عدول کرتا ہے۔ بلکہ اپنی اخلاقی فطرت کی گراوٹ کا باعث بنتا ہے۔ قتل کا وجود سب سے پہلے ذہن میں جنم لیتا ہے۔ وہ جو نفرت اور بغض کو اپنے دل میں جگہ دیتا ہے سمجھ لیں کہ اُس کے پاوں قتل کرنے کی راہ پر چل پڑے ہیں ۔ اُسکا نذرانہ خداوند کی نظر میں نفرت انگیز ہو گا۔ ZU 373.1
یہودیوں میں بدلہ لینے کی روح بدرجہ غائت تھی۔ رومی حکومت سے نفرت نے اُنہیں اس حد تک پہنچا دیا تھا کہ وہ ہر اُس بدکار کی حوصلہ افزائی کرتے اور بنظر احسن دیکھتے جو بڑھ چڑھ کر رومی حکومت کے خلاف بدکاری کا مظاہرہ کرتا۔ یوں بُرے لوگ مزید اپنی ہولناک بُرائیوں کی تربیت کرتے رہتے۔ یہودیوں کی زندگی میں بت پرست کی زندگی کے مقابلہ میں کسی قسم کی نہ کوئی اچھائی پائی جاتی نہ پارسائی۔ یسوع نے اُنہیں کہا کہ اپنے ستانے والوں کے خلاف دل میں بُغض نہ رکھو اور نہ اُن کے قصوروں کا بدلہ لینے کے لئے خواہش کرو۔ کیونکہ یہ گناہ ہے۔ یسوع نے فرمایا “پس اگر تو قربان گاہ پر اپنی نذر گذرانتا ہو اور وہاں تجھے یاد آئے کہ میرے بھائی کو مجھ سے کچھ شکائت ہے تو وہیں قربان گاہ کے آگے اپنی نذر چھوڑ دے اور جا کر پہلے اپنے بھائی سے ملاپ کر تب آکر اپنی نذر گذران “بہتیرے ایسے تھے جو مذہبی رسوم ادا کرنے میں بڑے سرگرم تھے لیکن اپنے بھائیوں کے ساتھ سخت اختلافات رکھتے تھے چنانچہ اُنہیں دور کرنا لازم تھا۔ جب تک وہ ایسا نہیں کرتے اُن کے ذبیحے اور نذریں خداوند کی نظر میں قابل قبول نہیں۔ ZU 373.2
خداوند سب پر اپنی برکات نازل کرتا ہے “وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راستبازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے۔ وہ ناشکروں اور بدوں پر بھی مہربان ہے” متی 45:5، لوقا 35:6۔۔۔ اُسکا فرمان ہے کہ ہم اُس کی مانند بنیں۔ اپنے ستانے والوں کے لئے دُعا کرو۔ جو تم پر لعنت کریں اُن کے لئے برکت چاہو ۔ جو تمہاری تحقیر کریں اُن کے لئے دُعا کرو۔ تاکہ تم کامل ہو جیسا تمہارا آسمانی باپ کامل ہے۔ اور اپنے باپ کے بچے کہلا سکو جو آسمان میں ہے۔ یہی شریعت کے اصول ہیں ۔ اور یہی زندگی کے چشمے ہیں۔ ZU 374.1
ایک مسیحی کا مثالی چالچلن یسوع کی سیرت کی مانند ہو سکتا ہے۔ جیسے خدا کا بیٹا اپنی زندگی میں کامل تھا اُسی طرح اُس کے شاگردوں کا اپنی اپنی زندگی میں کامل ہونا لازم ہے۔ یسوع مجسم ہو کر ہم انسانوں کے درمیان رہا۔ وہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے ہم ہیں۔ وہ بھی ہماری طرح بھوکا پیاسا اور ماندہ ہوتا تھا۔ وہ بھی کھانا کھا کر زندہ رہتا اور آرام فرما کر تازگی پاتا۔ اُس کا بھی وہی حصہ بخرہ تھا جو ہم انسانوں کا ہے۔ پھر بھی وہ بے الزام رہا۔ وہ بشریت میں خدا تھا۔ اُس کی سیرت ہماری سیرت ہو سکتی ہے۔ جو یسوع پر ایمان رکھتے ہیں خداوند اُن کے بارے یوں فرماتا ہے کہ “میں اُن میں بسوں گا اور اُن میں چلوں پھروں گا اور میں اُن کا خدا ہوں گا اور وہ میری اُمت ہوں گے “2- کرنتھیوں 16:6 یسوع مسیح وہ سیڑھی ہے جو بزرگ یعقوب نے دیکھی اُس کا پیندا زمین پر ٹکا ہوا تھا اور چوٹی آسمانی کی جلالی دہلیز کو چھو رہی تھی۔ اگر وہ سیڑھی صرف ایک گامکی کمی کے باعث زمین تک نہ پہنچ سکتی تو ہم یقیناً برباد ہو جاتے۔ مگر خداوند کا شکر ہو کہ خداوند یسوع مسیح جہاں ہم تھے وہاں آپہنچا۔ وہ انسان بنا اور اُس نے ہماری فطرت اُوڑھ لی تاکہ ہم اُس کی فطرت کو پہن کر غالب آئیں جیسے وہ غالب آیا۔ رومیوں 3:8۔۔۔ اُس نے بے گناہی کی زندگی بسر کی۔ اب اپنی الوہیت کی وجہ سے آسمانی تخت اُس کے قبضہ میں ہے جبکہ بشریت کی وجہ سے وہ ہمیں تھامے ہوئے ہے۔ وہ ہمیں فرماتا ہے کہ اُس میں ایمان رکھ کر خدا کی جلالی سیرت پہن لیں۔ تاکہ جیسا وہ کامل ہے ہم بھی کامل ہوں۔ ZU 374.2
خداوند یسوع نے بتا دیا ہے کہ کن باتوں میں راستبازی پائی جاتی ہے۔ اوریہ بھی کہ خدا راستبازی کا منبع ہے۔ اب خداوند یسوع مسیح عملی فرائض کی جانب آتا ہے۔ خیرات کرنے، روزہ رکھنے یا دُعا کرنے کے بارے اُس کا کہنا ہے کہ ان کاموں میں سے کوئی کام بھی دکھاوے اور لوگوں سے تعریف سننے کے لئے نہ کرو۔ نہ ہی یہ کام اپنی عزت یا بزرگی کے لئے کرو۔ بلکہ نیک نیتی سے غربا کی بھلائی کے پیش نظر پوشیدگی میں اُن کو خیرات دو۔ جب دُعا کرو تو صرف خدا کو معلوم ہو کہ تم اُس کی رفاقت میں ہو۔ لوگوں کے دکھاوے کے لئے دُعا نہ کرو۔ اگر روزہ سے ہو تو سر لٹکائے ہوئے نہ پھرو۔ ‘کہ لوگ تمہیں روزہ دار جانیں’ فریسی ایسا کرتے تھے۔ اُن کے بارے یسوع نے کہاکہ اُن کے دل بنجر زمین کی مانند ہیں جو بے پھل رہتی ہے۔ اُن کے دلوں میں کوئی روحانی بیج بڑھ پھل نہیں سکتا۔ پس لوگوں کے دکھاوے کے لئے کچھ نہ کرو۔ بلکہ کوشش کرو کہ تمہارے نیکی کے کاموں کو دُنیا۔ نہ جان سکے” اس صورت میں تیرا باپ جو پوشیدگی میں دیکھتا ہے تجھے بدلہ دے گا۔ “متی 4:6۔۔۔۔ وہی زندگی جو ہم یسوع مسیح کے ذریعہ سے گذارتے ہیں ہماری سیرت کو اُستوار کرتی اور حقیقی خوبصورتی روح میں بحال ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ یوں ہم میں یسوع مسیح کی سیرت کی خوبیاں اور الہٰی شبیہ درخشاں ہوتا شروع ہو جاتی ہے۔ وہ مرد و زن جو اُس کی خدمت میں ہیں اُن کے چہروں اور دلوں سے یسوع کا اطمینان اور مسرت عیاں ہوتی ہے۔ اور یہ مسرت بنی نوع انسان کے لئے باعث برکت ٹھہرتی ہے۔ ZU 375.1
“کوئی شخص دو مالکوں کی خدمت نہیں کر سکتا” متی 24:6 ہم منقسم دل کے ساتھ خدا کی خدمت نہیں کر سکتے۔ بائیبل کا مذہب ، دوسرے مذاہب کی طرح کا مذہب نہیں ہے۔ اس کا اخلاقی اور روحانی اثر دوسرے مذاہب سے اعلےٰ و ارفع ہونا چاہیے۔ نہ صرف اسے دوسرے مذاہب پر برتری حاصل ہونا چاہیے بلکہ انسانی زندگی پر اُسکا کلی اختیار ہونا بھی ضروری ہے۔ انسانی زندگی بائیبل کے مذہب میں یوں مدغم ہونی چاہیے جیسے کسی کپڑے کا تار تار رنگ میں ڈبونے کے بعد ہو جاتا ہے۔ “اگر تیری آنکھ دُرست ہو تو تیرا سارا بدن روشن ہو گا” متی 22:6۔۔۔۔ مقصد کی پختگی اور پاکیزگی دونوں حاصل ہو سکتی ہیں بشرطیکہ ہم خداوند سے نور حاصل کریں۔ جو صداقت کے متلاشی ہیں اُن کے لئے لازم ہے کہ جتنی سچائی ظاہر کی گئی ہے اُسے بدل و جان قبول کریں۔ بے دلی اور متزلزل وفاداری سے صداقت کی پیروی کرنا ظلمت اور ابلیسی سراب کا انتخاب کرنے کے مترادف ہے۔ ZU 376.1
دُنیاوی پالیسی اور راستبازی کے پاکیزہ اصول ایک دوسرے کے ساتھ میل نہیں کھا سکتے۔ بالکل اُسی طرح جیسے قوس قزاح کے رنگ آپس میں مدغم نہیں ہو سکتے۔ ان دونوں کے درمیان ابدی خدا نے بڑی واضح حد بندی کر رکھی ہے۔ مسیح اور ابلیس کی مشابہت میں اتنا فرق ہے جتنا تار شب اور نور کے تڑکے میں۔ چنانچہ وہ سب جو اُس کی زندگی بسر کرتے ہیں وہی اُس کے کارندے ہیں۔ کسی کی زندگی میں تھوڑی سی بدی بھی اُس کی تمام زندگی کو غلیظ کر دیتی ہے۔ یوں انسان ناراستی کا آلہ بن کر رہ جاتا ہے۔ ZU 376.2
وہ تمام لوگ جو خدا کی خدمت کا انتخاب کرتے ہیں خدا اُن سب کی فکریں کرتا ہے۔ خداوند مسیح نے میدان کی گھاس، پھولوں اور ہوا کے پرندوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا “ہوا کے پرندوں کی طرف دیکھو کہ نہ بوتے ہیں نہ کاٹتے ہیں ۔ نہ کوٹھیوں میں جمع کرتے ہیں۔ تو بھی تمہارا آسمانی باپ تمہارا آسمانی باپ اُن کو کھلات ہے۔ کیا تم اُن سے زیادہ قدر نہیں رکھتے؟ متی 26:6۔۔۔ چھوٹی سی چڑیا جو اڑتی ہے خداوند اُس کی بھی حفاظت کرتا ہے۔ کھیت کے پھول میدان کی گھاس جو زمین پر غالیچہ کی مانند بچھی ہے اُن سب کی حفاطت اور فکر ہمارا آسمانی باپ کرتا ہے۔ خداوند مسیح نے سوسن کے پھول کی اتنی خوبصورتی دی ہے کہ وہ سلیمان بادشاہ کے لباس پر سبقت رکھتی ہے۔ اگر خداوند ان چھوٹی چھوٹِ چیزوں اور جانداروں کی اتنی حفاظت کرتا ہے تو انسان کی کتنی زیادہ فکر کرے گا۔ جسے اُس نے اپنی شبیہ پر منایا ہے اور جو خدا کا جلال ہے؟ بلکہ خدا نے ہمارے سر کے بال بھی گن رکھے ہیں۔ ZU 377.1
اُسکے ذہن سے اُس کے بچے کبھی بھی محو نہیں ہو سکتے۔ “پس کل کے لئے فکر نہ کرو۔ کیوں کہ کل کا دن اپنے لئے آپ فکر کر لے گا۔ آج کے لئے آج ہی کا دُکھ کافی ہے۔ “متی 34:6۔۔۔ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ آئے روز یسوع کے پیچھے چلتے ہیں۔ خداوند کل کے لئے پہلے سے مدد نہیں دے دیتا۔ وہ اپنے بچوں کو اُن کی پوری زندگی بھر کے سفر کے لئے ایک ہی بار ساری ہدایات صادر نہیں کر دیتا مبادہ اُلجھن کا شکار ہو جائیں۔ وہ صرف اُن کو اُتنی ہی ہدائت کرتا ہے جتنی وہ یاد رکھ کر عمل میں لا سکیں۔ وہ قوت اور حکمت جو خدا نےہمیں دے رکھی ہے موجودہ حالات سے عہدہ براہ ہونے کے لئے کافی ہے۔ ZU 377.2
”اگر تم میں سے کسی میں حکمت کی کمی ہو“ ’آج کے لئے‘ تو خدا سے مانگے جو بغیر ملامت کئے سب کو فیاضی کے ساتھ دیتا ہے“ یعقوب 5:1” عیت جوئی نہ کرو کہ تمہاری بھی عیب جوئی نہ کی جائے “متی 1:7۔۔۔۔ خود کو دوسرے سے بہتر نہ سمجھو۔ اور نہ اُن کے مُنصف بننے کی کوشش کرو۔ کیونکہ تم کسی کی نیت سے واقف نہیں ہو سکتے اس لئے کسی کی عیب جوئی نہ کریں۔ اُس پر نکتہ چینی کرنے سے آپ اپنے آپ کو مجر م ٹھہراو گے۔ ابلیس کے ساتھی ٹھہرو گے جو بھائیوں پر الزام تراشی کرتا ہے۔ خداوند فرماتا ہے ”تم اپنے آپ کو آزماو کہ ایمان پر ہو یا نہیں۔ اپنے آپ کو جانچو ”ہمارا کام یہ ہے“ اگر ہم اپنے آپ کو جانچتے تو سزا نہ پاتے“ 2-کرنتھیوں 5:13، 1-کرنتھیوں 31:11 ZU 378.1
اچھا درخت اچھا پھل لاتا ہے۔ اگر پھل ناکارہ اور بدمزہ ہے تو ظاہر ہے جس درخت کا یہ پھل ہے وہ اچھا نہیں۔ اسی طرح ہماری زندگی کا پھل ہمارے ہمارے دل اور چالچلن کی کیفیت کی گواہی دیتا ہے۔ بیشک نیک کاموں سے ہم نجات خرید نہیں سکتے مگر نیک کام اُس ایمان کا ثبوت ہیں جو محبت سے عمل میں آتا اور روح کو پاکیزگی بخشتا ہے۔ اگرچہ ابدی اجر ہمیں ہمارے نیک خصائل کے سبب سے نہیں ملتا تاہم اسکی اُس کام کے ساتھ ضرور کوئی نسبت ہو گی جو ہم خداوند یسوع مسیح کے فضل سے انجام دیتے ہیں۔ یوں خداوند یسوع مسیح اپنی بادشاہی کے اصول دُنیا کے سامنے پیش کرتا ہے اور دکھاتا ہے کہ یہی زندگی کے لئے قانون اور ضابطے ہیں۔ اُسنے سب کو تاکیداً کہا کہ ان اصولوں کو اپنی سیرت کی اساس بناو۔ خود پر تکیہ نہ کرو۔ یہ ریت کی دیوار ثابت ہو گی۔ اگر تم انسانی نظریات پر تعمیر کرو گے تو آپ کا گھر گر پڑے گا۔ آزمائش کی آندھیاں اور طوفان آپ کے گھر کو بہالے جائیں گے۔ مگر جو اصولات میں نے آپ کو دئیے ہیں تا ابد قائم رہیں گے۔ مجھے قبول کرو۔ اور میرے کلام پر تعمیر کرو۔ پس جو کوئی میری یہ باتیں سننا اور اُن پر عمل کرتا ہے وہ اُس عقلمند آدمی کی مانند ٹھہرے گا جس نے چٹان پر اپنا گھر بنایا اور مینہ برسا اور پانی چڑھا اور آندھیاں چلیں اور اُس گھر پر ٹکریں لگیں وہ نہ گرا کیونکہ اُس کی بنیاد چٹان پر ڈالی گئی تھی۔ “متی 24:7-25 ZU 378.2
****