زمانوں کی اُمنگ
باب نمبر 26 - کفر نحوم میں
یسوع اکثر جب سفر سے تھکا ماندہ ہوتا تو آرام کرنے کے لئے گاہے بگاہے کفر نحوم میں آیا کرتا تھا۔ لوگ کفر نحوم کا اس کا شہر کہہ کر پکارتے تھے۔ یہ شہر گلیل کی جھیل کے کنارے واقع تھا جو گنیسرت کی خوبصورت میدانی سرحد کے قریب تھا گہری نشیبی جھیل کی خوشگوار آب و ہوا میدان کے کونے کونے کو معطر کرتی تھی۔ یسوع مسیح کے زمانہ میں یہاں کھجور زیتون اور درختوں کے بے شمار جھنڈ تھے باغات اور انگوروں کے تاکستان بھی تھے۔ یہاں ہرے بھرے لہلہاتے کھیت اور خوبصورت مختلف انواع و اقسام کے پھول بھی دیکھے جا سکتے تھے۔ پہاڑی سے بہتے چشمے ان سب کو سیراب کرتے تھے۔ جھیل کا کنارا اور پہاڑیون کا سلسلہ اس شہر سے تھوڑی ہی دور تھا جس پر چھوٹے چھوٹے گاؤں اور قصبے آباد تھے۔ جھیل ماہی گیروں کی کشتیوں سے بھری پڑی تھی۔ ہر جگہ گہماگہمی دیکھی جا سکتی تھی۔ ZU 298.1
کفر نحوم مسیح خدا وند کے کام کا مرکز تھا ۔ شاہراہ پر واقع ہونے کی وجہ سے یہ شہر دمشق، یروشلم ، مصر وغیرہ کے لئے شارع کا کام دیتا تھا۔ کئی علاقوں سے لوگ آتے اور اس شہر میں سے ہو کر گزرتے ۔ کبھی کبھی لوگ دور دراز سے سفر کی تھکان دور کرنے کے لئے یہاں ٹھہر جایا کرتے تھے۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں مسیح یسوع تمام طبقوں اور قوموں کے لوگوں سے مل سکتا تھا۔ یہی وہ جگہ تھی جہاں وہ امراء اور غریبوں کو تعلیم دے سکتا تھا جو اس کے کلام کو دور دراز کع علاقوں میں پہنچاتے۔ یہاں لوگوںکی توجہ نجات دہندہ اور پیشنگوئیوں کی طرف لگائی جاتی یوں پل بھر میں اُس کے مشن کی تکمیل ہوتی۔ ZU 298.2
ايڈرن (نیشنل کونسل) کی نالش کے باوجود لوگ مسیح کے مشن کی ترقی کے خواہاں تھے ۔ پورا آسمان اس میں دلچسپی لیتا تھا۔ فرشتے اُس کی خدمت کے لئے انسانوں کو تیار کر رہے تھے۔ وہ انسانوں کو قائل کر کے مسیح کے قدموں میں لا رہے تھے۔ کفر نحوم میں ایک سردار کا بیٹا جسے مسیح نے شفا بخشی تھی اُس کی قدرت کی واضح گواہی تھا۔ درباری اور اُس کے گھر والے بڑی خوشی سے اپنے ایمان کی گواہی دیتے تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جب شہر کے لوگوں کو پتہ چلا کہ عظیم طبیب اُن کے شہر میں آیا ہے تو بھیڑ جوق در جوق اُس کے چو گرد آ جمع ہوئی۔ یہ سبت کا دن تھا اور ہیکل میں گنجائش سے زیادہ لوگ آ گئے جن کو واپس بھیجنا پڑا --- ZU 299.1
اُنہوں نے اُسے سنا وہ سب اُس کی تعلیم سے حیران ہوئے۔ کیوں کہ وہ انہیں غریبوں کی طرح نہیں بلکہ صاحبِ احتیار کی طرح تعلیم دیتا تھا۔ لوقا 32:4 ، متی --- فریسیوں اور قوم کے بزرگوں کی تعلیم رسمی، بے حس ، غیر دلچسپ ، بے معنی اور رٹی رٹائی ہوتی تھی۔ اُن کے سامنے خدا کے کلام کی کوئی وقعت نہ تھی۔ خدا کے کلام کی جگہ انہوں نے اپنی رسموں اور روایات کو جگہ دے رکھی تھی۔ جو وہ بیان کرتے تھے اُن میں حسبِ معمول اُن کا دعوٰے ہوتا تھا کہ وہ شرعت کو بیان کرتے ہیں ۔ مگر اُس سے نہ اُن کے اپنے دل اور نہ ہے سننے والوں کے دل متحرک ہوتے۔ ZU 299.2
یسوع مسیح کو اُن مختلف نظریات سے کُچھ غرض و غائت نہ تھی جو یہودیوں کے درمیان پائے جاتے تھے۔ اُس کا تو کام سچائی بیان کرنا ااور نبیوں اور آبائی بزرگوں کی تعلیم پر روشنی ڈالنا تھا۔ یوں الہامی نسخے آدمیوں کے سامنے نئے مکاشفہ کی صورت میں آشکار ہوتے۔ اُس کے سامعین نے اُس سے پہلے کلام کے اتنے گہرے نہ سُنے تھے۔ وہ سچائی کو بڑی سادگی اور خوبصورتی سے براہ راست پیش کرتا ۔ اُس کی زبان صاف، سادہ اور ندی کے پانی کی طرح شفاف اور رواں ہوتی۔ گو اُس کی زبان سادہ ہوتی تھی پھر بھی وہ احتیار والوں کی طرح تعلیم دیتا تھا۔ شرع کے معلم یقینی حالت میں ہچکچاتے ہوئے تعلیم دیتے تھے کیونکہ اُن کو یقین نہیں ہوتا تھا کہ جو کچھ ہو کہہ رہے ہیں یہ الہامی نسخوں کے ہم آہنگ ہے یا نہیں؟ اس لئے ان کے سامعین آئے روز غیر یقینی کا شکار ہوتے تھے۔ لیکن مسیح کی تعلیم میں شک کی کوئی گنجائش نہ ہوتی تھی۔ ZU 300.1
وہ اس طرح تعلیم دیتا جیسے کسی کے سامنے خاص مقصد حیات ہو۔ وہ سامعین کے سامنے ابدی دُنیا کے حقائق پیش کرتا۔ جو کچھ بھی وہ کہتا اُس میں خداوند کو پیش کرنا ۔ خداوند مسیح انسانوں کو دُنیاوی جاہ حشمت کے جادو سے باہر نکلالنا چاہتا تھا۔ اُس نے اس دُنیا کو ابدی دُنیا کی چیزوں کے تابع ظاہر کیا۔ تاہم ان نے ان کی جسمانی ضروریار زندگی کو نظر انداز نہ کیا۔ اس نے سکھایا کہ آسمان اور زمیں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اس لئے الٰہی صداقت انسا ن کو روز مرّہ کی ضرورت انجام دینے کے لئے بہتر طور پر تیار کرتی ہے۔ وہ اس طرح بات کرتا جیسے وہ ان سے بخوبی واقف ہو۔ ZU 300.2
رحم کے مختلف پیغامات جو وہ اپنے سامعین کو دیتا و ہ ہر لحاظ سے اُن کے لئے تسلی و سکون کا سبب بنتے۔ کیوں کہ وہ جانتا تھا “کہ کس طرح تھکے ماندے کی مدد کی جا سکتی ہے ” یسعیاہ 4:50۔۔۔ اپس کے لبوں سے فضل ٹپکتا تھا تاکہ وہ لوگوں کو سچائی کے خزانے پہنچائے۔ تعصب اور تنگ نظر لوگوں کو بھی وہ ملنا جانتا تھا ور پھر ایسی مثالیں دیکر اُن کو حیران کر دیتا جو اُن کے دلوں کو جیت لیتیں۔ اُس کی مثالیں روزمرہ کی زندگی سے ہوا کرتی تھیں۔ بیشک وہ سادہ ہوتی تھیں مگر اپنے اندر گہرے مطالب رکھتی تھیں۔ ہوا کے پرندے، میدان کی گھاس، بیج، چرواہا اور بھیڑ ان کے ذریعے مسیح یسوع لوگوں کو ابدی سچائی کا سبق دیتا۔ اُس کے سامعین بعد میں جب کبھی بھی ان چیزوں کو دیکھتے اُنہیں مسیح ک تعلیم یاد آ جاتی۔ یوں اُس کی تماثیل عوام کے لئے دائمی تعلیم بن جاتیں۔ ZU 301.1
مسیح یسوع نے کبھی بھی کسی کی خوشامد کی نہ کسی کے حق میں ایسی بات جس سے اُس کا سر غرور سے پھول جائے۔ پھر بھی اُن لوگوں نے جو تعصب سے پاک تھے اُس کی تعلیم کو قبول کیا۔ اُنہوں نے یہ بھی معلوم کیا کہ یہ اُن کی حکمت کا امتحان تھا۔ سادہ زبان میں بیان کردہ روحانی سچائیوں کے بارے بھی وہ حیران تھے۔ بڑے بڑے عالم فاضل اُس کے کلام سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے۔ اُس کا سادہ پیغام ان پڑھ لوگوں کے لئے ہوتا تھا۔ ZU 301.2
مسیح یسوع اپنے سامعین کے متغیّر چہروں کو بڑی سنجیدگی سے دیکھتا۔ جن چہروں سے دلچسپی اور خوشی ٹپکتی اُن کو دیکھ کر اُسے بڑا اطمینان حاصل ہوتا۔ جیسے ہی سچائی کا تیر اُن کی روح سے پار ہوتا، خود غرضی کی دیواریں توڑتا، دل میں شکستگی لاتا اور وہ فرد واحد خدا کا شکر گذار ہوتا، تو اسے دیکھ کر یسوع کا دل خوشی سے معمور ہو جاتا۔ اور جب وہ ہجوم کا جائزہ لیتا اور اُس کی آنکھیں اُن روحوں سے دو چار ہوتیں جن کو اُس نے پہلے بھی تھا تو اُس کا چہرہ خوشی سے تمتما اُٹھتا۔ اُنہیں اپنی سلطنت کو رعایا سمجھتا۔ پھر اُس نے اُن چہروں کا بھی جائزہ لیا جو بے پردہ تھے اور کہہ رہے تھے کہ ہم نور کو خوش آمدید نہیں کہتے۔ جب وہ اُنہیں دیکھتا تو اُس کا دل ؟؟؟ جاتا۔ ZU 301.3
مسیح نے ہیکل میں بڑی وضاحت سے بتایا تھا کہ وہ کس قسم کی بادشاہت قائم کرنے آیا ہے۔ یعنی ابلیس کے اسیروں کو اُس کے چنگل سے آزادی۔ جب وہ کہہ رہا تھا تو ایک آدمی جس میں بدروحیں تھیں چیختا چلاتا اُس کی طرف دوڑا اونچی چیخ کر کہنے لگا “اے یسوع، خدا تعالےٰ کے بیٹے سے کیا کام تیری منت کرتا ہوں کہ مجھے عذاب میں نہ ڈال” ZU 302.1
اُس کے ساتھ ہی ہر طرف افراتفری مچ گئی۔ لوگوں کی توجہ مسیح اور اُس کے کام پر سے ہٹ گئی۔ یہی ابلیس کا مقصد تھا جس میں وہ کامیاب ہو گیا۔ تاہم مسیح نے ابلیس کو جھڑکا اور کہا چپ رہ اور اس میں سے باہر نکل آ۔ ابلیس اُسے نقصان پہنچائے بغیر زمین پر ٹپک کر اُس میں سے نکل گیا۔ ابلیس نے اُس شخص کے ذہن کو تاریک کر رکھاتھا مگر مسیح کی حضوری میں اُس کا ذہن روشن ہو گیا اور ابلیس سے آزاد ہونے کے لئے جاگ اُٹھا۔ مگر ابلیس نے اپنے الفاظ اُس کے دل میں ڈال دئیے اور کہا کہ مجھے تجھ سے کیا کام۔ مگر مسیح جس نے بیابان میں ابلیس پر فتح پائی تھی دوبارہ اُس کے مقابل آ گیا۔ ZU 302.2
ابلیس نے اُس شخص کو اپنے قبضہ میں رکھنے کے لئے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا مگر اُسے پسپا ہونا پڑا۔ یہ مسیح کی فتح تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ ابلیس شائد اس کی جان لے لے جس کو اُس نے کافی عرصہ سے اپنے قبضہ میں کر رکھا تھا۔ مگر نجات دہندہ نے یہاں اختیار کے ساتھ کلام کیا اور اسیر کو آزاد کرا لیا۔ چنانچہ وہ شخص جو عرصہ سے ابلیس کی قید میں تھا عوام کے سامنے خوش و خرم آزاد کھڑا ہو گیا۔ ابلیس سے چھٹکار پانے والے شخص نے اپنی رہائی کے لئے خداوند کی تعریف کی۔ وہ آنکھیں جو دیوانگی سے ڈراونی دکھائی دیتی تھین اُن میں ذہانت آ گئی۔ اُن سے خوشی اور شکر گذاری کے آنسو چھلک پڑے۔ لوگ اس معجزہ سے ہکا بکا رہ گئے۔ ZU 302.3
جب وہ خوف اور تذبذب کی حالت سے باہر نکلے تو وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے۔ “یہ کیا ہے؟ یہ تو نئی تعلیم ہے، وہ ناپاک روحوں کو بھی اختیار کے ساتھ حکم دیتا ہے اور وہ اُس کا حکم مانتی ہیں” مرقس 27:1 ZU 303.1
اس بیماری کا سبب یہ شخض خود تھ جو اب دوسروں کے لئے تماشہ بنا پڑا تھا۔ یہ گناہ سے لطف اندوز ہوتا رہا تھا۔ اُس نے زندگی میں رنگ رلیوں کے کسی موقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیا تھا۔ وہ نہیں سوچتا تھا ایسا کہ وقت آئے گا جب وہ اپنے خاندان کے لئے کلنگ کا ٹیکا بن جائے گا۔ وہ نہیں سمجھتا تھا کہ وہ دُنیا کی نظروں میں بدبخت اور ہولناک شخص ہو گا۔ پہلے پہل اُس نے سوچا کہ میری یہ غلطی معصوم سی غلطی ہے اس سے مجھے کوئی دکھ نہ پہنچے گا۔ مگر جب وہ تنزلی کی راہ پر چل نکلا تو پھسلتا ہی چلا گیا رکنے کا کوئی موقع ہاتھ نہ آیا۔ بد پرہیزی اور لچر پن نے اُسکے تمام نیک خصائل کو داغ دار کر دیا۔ یوں ابلیس نے اُس پر مکمل قبضہ جما لیا۔ ZU 303.2
اب وہ بہت پچھتایا مگر بہت دیر ہو چکی تھی۔ اپنی کھوئی ہوئی جوانی کو حاصل کرنے کے لئے جب اُس نے روپیہ پیسہ اور اپنی خوشیوں کی قربانی دینا چاہی تو اُس وقت تک وہ پورے طور پر ابلیس کے شکنجے میں پھنس چکا تھا۔ ابلیس نے اس کی تمام قوا کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ آزمانے والے نے اُس کو بڑی بڑی دلکش چیزیں پیش کر کے پھنسا رکھا تھا۔ وہ سب جو خود کو بدی کے حوالے کرتے ہیں اُن کا یہی انجام ہوتا ہے۔ وہ تاریکی ، مایوسی اور دیوانگی کا شکار رہتے ہیں۔ اُن کی روح برباد ہو جاتی ہے۔ ZU 303.3
وہ بُری روح جس نے مسیح کو بیابان میں آزمایا تھا۔ اور جس نے کفر نحوم کے شخص کو اپنے قبضے میں کر رکھا تھا۔ اُسی نے ہی کم اعتقاد یہودیوں کو اپنے نرغے میں پھنسا رکھا تھا۔ اُس بُری روح نے اُنہیں پارسائی کے بارے متکبر بنا دیا تھا۔ کوں دھوکا دہی کے ذریعے ابلیس کی مطلب براری ہوئی اور اُنہوں نے مسیح کو رد کر دیا یہودیوں کی حالت اُس شخص سے زیادہ مایوس کن تھی جس میں بد روحیں تھیں۔ کیونکہ یہودی مسیح کی مدد کی ضرورت محسوس ہی نہ کرتے تھے۔ اسلئے وہ پوری طرح ابلیس کا شکار ہو چکے تھے۔ مسیح یسوع کی ساری کی ساری خدمت تاریکی کی حکومت کے خلاف جنگ کرنے میں گذری۔ قدیم زمانوں سے ہی ابلیس اور اُس کے بُرے فرشتوں کی یہ کوشش رہی ہے کہ انسانوں کی روح اور بدن دونوں پر قبضہ جمائیں۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ابلیس کبھی اُن پر گناہ اور کبھی تکالیف لاتا ہے۔ اس پر طُرہ یہ کہ ابلیس ان تمام گناہوں اور دُکھوں کا خدا کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ یسوع مسیح انسانوں پر خداوند کی سیرت ظاہر کرتا تھا۔ وہ ابلیس کی طاقت کو ملیامیٹ کرتا تھا۔ جو ابلیس کی قید میں بند تھے اُن کو آزاد کرتا تھا۔ جب کہ بدی کا شہزادہ اپنی برتری کا خواہاں تھا۔ چنانچہ اُس نے اپنی تمام بدی کی قوتوں کو بُلا کر حکم دیا کہ ہر قدم پر یسوع کی خدمت میں رکاوٹ ڈالیں۔ ZU 304.1
راستبازی اور گناہ کی آخری کشمکش کے موقع پر بھی ایسا ہی ہو گا۔ نئی زندگی نور اور قدرت مسیح کے شاگردوں پر آسمان سے نازل ہو گی جبکہ ابلیس کے حواریوں کو اس زمین سے نئی زندگی اور قوت ملے گی۔ زمین کا ہر عنصر شدت اختیار کر جائے گا۔ دھوکا دہی کے ذریعہ صدیوں سے ابلیس کام کرتا رہا ہے۔ وہ نورانی فرشتہ کی صورت میں بھی ظاہر ہو جاتا ہے۔ یوں عوام “گمراہ کرنے والی روحوں اور شیاطین کی تعلیم کی طرف متوجہ ہو کر ایمان سے برگشتہ ہو جاتے ہیں” 1- تمتھیس 1:4 ZU 304.2
یسوع مسیح کے زمانہ میں اسرائیلی اساتذہ اور لیڈر ابلیس کا مقابلہ کرنے کے لئے بے بس تھے کیونکہ کلام مقدس جو بُری روحوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ازبس ضروری تھا وہ اُسے نظر انداز کر رہے تھے۔ دیکھئے یہ واحد خدا کا کلام تھا جس کے ذریعے یسوع ابلیس پر غالب آیا۔ اسرائیلی قیادت یہ دعوےٰ کرتی تھی کہ ہمارے پاس خدا کا کلام ہے۔ مگر وہ صرف اپنی رسوم اور اپنے بنائے ہوئے قوانین پر عمل درآمد کرتے تھے۔ اکثر اُن کی تعبیر و تفسیر خدا کے کلام سے متضاد ہوتی تھی۔ وہ سادہ تعلیم کو پچیدہ بنا دیتے اور جو ضروری صداقتیں تھیں اُن کا انکار کر دیتے۔ یوں بے اعتقادی کا بیج بویا جاتا۔ اور خدا کے کلام کی طاقت کو ملیا میٹ کر دیا جاتا۔ چنانچہ بُری روحوں کے لئے راستے تیار ہو جاتے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ٹھہرتیں۔ ZU 305.1
تاریخ خود کو دہراتی رہتی ہے۔ آج بھی ہمارے زمانے کے مذہبی رہنما کلام مقدس کا اعتراف اور احترام کرتے ہوئے بھی ایمان کی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ اور کتاب مقدس کے سادہ سادہ اقتباسات کی اپنی مرضی کے مطابق تعبیر کر لیتے ہیں۔ ؟؟؟ کے ہاتھ میں خداوند کا پاک کلام دوبارہ تخلیق کی قوت کھو دیتا ہے۔ یوں بے حیائی کی ریل پیل اور بدی عام ہو جاتی ہے جب ابلیس کتاب مقدس پر سے انسانوں کا ایمان ختم کر دیتا ہے تو وہ اُن کی توجہ کسی دوسری قوت کے منبع کی طرف مبذول کرادیتا ہے۔ وہ سب لوگ جو الہامی نسخوں کی سادہ تعلیم اور روح القدس کی قائل کرنے والی قوت سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ وہ بد روحوں کو دعوت دیتے ہیں کہ اُن کے جسم اور ذہن دونوں کو اپنے قبضہ میں کر لیں۔ یوں وہ نکتہ چینی شک و شبہات، تصوف اور بقائے روح کے نظریہ کے لئے راہ ہموار کر دیتے ہیں۔ ZU 305.2
انجیل کی تشہیر کے پہلو بہ پہلو جھوٹی روحوں کے نمائندے سرگرم عمل ہیں بہت بہت سے لوگ محض تجسس کی تشفّی کے لئے اس کے ساتھ گٹھ جوڑ کرتے ہیں۔ اور یہ دیکھ کر کہ یہ انسانی قوت سے زیادہ کام کرنے والی روحیں ہیں اُن کے گرویدہ ہو جاتے ہیں۔ اور ایک وقت آتا ہے کہ ایسے لوگ ان بد روحوں کے چُنگل میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔ چونکہ یہ جھوٹی روحیں اُس کی اپنی طاقت سے کہیں زیادہ زور آور ہوتی ہیں۔ اسلئے وہ اُن کی پُر اسرار قوت سے رہائی نہیں پا سکتے۔ ZU 306.1
روح کی حفاظت کے لئے جو باڑ تھی وہ توڑ دی گئی ہے۔ گناہ کے خلاف کوئی پناہ نہیں رہی۔ جب ایک دفعہ خدا کے کلام اور روح القدس کو رد کر دیا جاتا ہے تو کسی شخص کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اب وہ گناہ کی اتھاہ میں اُتر جائے گا۔ جیسے کفر نحوم کے شخص کو ابلیس نے جکڑ رکھا تھا۔ اسی طرح روح القدس اور خدا کے کلام کو رد کرنے والے کو اُس کے مخفی گناہ اور اُس کے بے قابو جذبات اسیر کر لیتے ہیں۔ اس کے باوجود اُس کی حالت مایوس کن نہیں ہے۔ جس وسیلہ سے مسیح ابلیس پر غالب آیا اُسی وسیلہ سے ہم بھی بد روحوں پر غالب آسکتے ہیں۔ یعنی خدا کے کلام کی قدرت سے۔ خدا ہماری اجازت کے بغیر ہمارے ذہن کا قبضہ نہیں لیتا۔ لیکن اگر ہم اُس کی مرضی جاننے اور پوری کرنے کی خواہش رکھتے ہوں تو پھر اپس کے تمام وعدے ہمارے لئے ہیں۔ “اور سچائی وے واقف ہو گے اور سچائی تم کو آزاد کر ے گی” اگر کوئی اُس کی مرضی پر چلتا ہے تو وہ اس تعلیم کی بابت جان جائے گا کہ خدا کی طرف سے ہے یا میں اپنی طرف سے کہتا ہوں “یوحنا 32:8، 17:7 ان وعدوں کی بدولت ایمان کے ذریعہ ہم گناہ کی قید سے آزاد ہو سکتے ہیں۔ ZU 306.2
ہر شخص کو اختیار حاصل ہے کہ وہ جس طاقت کے تحت رہنا چاہے اُس کا انتخاب خود کرے۔ کوئی بھی اتنا بدی میں غرق نہیں ہوا کہ وہ نجات نہ پا سکے۔ جس شخص میں بد روحیں تھیں وہ بیشک وہی کلام کر سکتا تھا جو ابلیس نے اُس کے منہ میں ڈالا تھا۔ لیکن یاد رہے کہ وہ دُعا جو اُس کے دل میں تھی مگر لبوں تک نہ آ سکی ہمارے خداوند یسوع مسیح نے سن لی اور اُسے شفا بخشی۔ جو خدا کے آئین کے ساتھ منسلک ہو جاتے ہیں۔ اُنہیں خداوند نہ تو اُن کی فطری کمزوریوں میں اور نہ ہی ابلیس کے قبضہ میں رہنے دیتا ہے۔ اُن کو نجات دہندہ دعوت دیتا ہے۔ “اگر کوئی میری توانائی کا دامن پکڑے تو مجھ سے صلح کرے۔ ہاں وہ مجھ سے صلح کرے “یسعیاہ 5:27۔۔۔۔ وہ روح جو ابلیس کے سایہ تلے رہی ہو ابلیس کے حواری اُسے اپنے قبضہ میں رکھنے کے لئے سر توڑ کوشش کرتے ہیں۔ مگر خداوند کے پاک فرشتگان اپنی قوت سے اُسے بچائے رکھتے ہیں۔۔۔۔۔ خداوند فرماتا ہے۔ “کیا زبردست سے شکار چھین لیا جائے گا؟ اور کیا راستباز کے قیدی چھڑا لئے جائیں گے؟ خداوند یوں فرماتا ہے کہ زور آور کے اسیر بھی لے لئے جائیں گے؟ اور مہیب کا شکار چھڑا لیا جائے گا کیونکہ میں اُس سے جو تیرے ساتھ جھگڑتا ہے جھگڑا کروں گا اور تیرے فرزندوں کو بچالوں گا” یسعیاہ 24:49-25 ZU 307.1
بہت جلد یسوع مسیح کی خدمت کی خبر سارے کفر نحوم میں پھیل گئی ۔ ربیوں کے خوف سے لوگ سبت کے دن شفا پانے نہ آئے۔ لیکن جونہی سبت گذر گیا لوگ جوق در جوق یسوع کے گرد جمع ہو گئے۔ گھروں، دکانوں، منڈیوں حتٰی کہ چاروں طرف سے لوگ اُس گھر میں پہنچ گئے جہاں یسوع تھا۔ بعض بیماروں کو چارپائیوں پر ڈال کر لایا گیا۔ بعض چھڑی کےسہارے چل کر آئے۔ بعض کو اُن کے دوست احباب سہارا دے کر لا رہے تھے۔ وہ گرتے پڑے یسوع کے قدموں میں آ گئے۔ کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ کل یہ عظیم طبیب ہمیں میسر ہو گا یا نہیں۔ اسلئے آنے والے بیماروں کا تانتا بند گیا۔ کفر نحوم نے ایسا دن کبھی نہ دیکھا تھا۔ فضا فتح اور نجات کے نعروں سے گونج اُٹھی۔ جو خوشی یسوع نے دکھیوں کو دی تھی اُسے دیکھ کر یسوع بھی بہت مسرور ہوا۔ جب تک تمام مریضوں کو شفا نہ بخش دی۔ یسوع نے آرام نہ فرمایا۔ لبڑی رات تک لوگ آتے جاتے رہے۔ رات گئے بھیڑ رخصت ہوئی۔ اس کے بعد شمعوں کے گھر سے شور شرابا موقوف ہوا۔ مصروف دن گذارنے کے بعد یسوع نے آرام کرنا چاہا۔ دُنیا ابھی گہری نیند کے مزے لوٹ رہی تھی جب یسوع جاگ اُٹھا۔ “اور صبح ہی دن نکلنے سے بہت پہلے وہ اُٹھ کر نکلا اور ایک ویران جگہ میں گیا اور وہاں دُعا کی “مرقس 35:1 ZU 308.1
یسوع مسیح کی زمینی زندگی یوں گذری۔ وہ اپنے شاگردوں کو اکثر موقع دیتا کہ اپنے گھر والوں سے ملکر آئیں۔ مگر اُس نے کسی کو اجازت نہ دی کہ اُسے کام سے باز رکھ سکے۔ سار ا سارا دن وہ بیماروں کو شفا، ان پڑھ اور اناڑی لوگوں کو تعلیم دینے اور اندھوں کی بینائی بحال کرنے اور بھوکوں کو کھانا کھلانے میں گذار دیتا۔ شام کا وقت یا نور کا تڑکا ہیکل یا پہاڑوں میں اپنے باپ کی رفاقت میں گذارتا۔ اکثر وہ دُعا میں ساری ساری رات گذار دیتا اور صبح ہوتے ہی لوگوں کی خدمت میں مصروف ہو جاتا۔ ZU 308.2
صبح سویرے پطرس اور دوسرے شاگرد اُس کے پاس آکر کہنے لگے کہ کفر نحوم کے لوگ تجھے ڈھونڈ رہے تھے۔ وہ سلوک جو یروشیلم کے لوگوں نے یسوع کے ساتھ کیا تھا اُس کی وجہ سے شاگرد سخت بے دل تھے۔ یروشیلم کے حاکم تو یسوع کی جان کے در پہ تھے۔ یہاں تک کہ اُس کے اپنے قصبہ کے لوگوں نے اُسے جان سے مارنا چاہا۔ مگر کفر نحوم میں اُن کی بڑی آو بھگت ہوئی جس کی وجہ سے شاگردوں کے دل اُمید سے بھر گئے۔ گلیلوں میں ایسے لوگ پائے گئے جو خدا کی بادشاہی کے متمنی تھے۔ لیکن جب مسیح نے فرمیا کہ “آو ہم اور کہیں آس پاس کے شہروں میں چلیں تاکہ وہاں بھی منادی کروں کیوں کہ میں اسی لئے نکلا ہوں “تو وہ یہ سن کر بڑے حیران ہوئے۔ ZU 309.1
اُس جوش و خروش کے پیش نظر جو کفر نحوم میں پیدا ہو گیا۔ یہ خطرہ لا حق ہوا مبادہ لوگ یسوع کی خدمت کی غرض و غائت کو پس پشت ڈال دیں۔ یسوع مسیح نہیں چاہتا تھا کہ لوگ اُسے صرف عظیم طبیب مان کر اُس کی طرف متوجہ ہوں۔ بلکہ وہ چاہتا تھا کہ لوگ اُسے اپنا نجات دہندہ تسلیم کر کے اُسکے پاس آئیں۔ لوگ تو یہ تسلیم کر چکے تھے کہ یہ بطور بادشاہ اس دُنیا پر اپنی سلطنت قائم کرنے آیا ہے۔ مگر یسوع مسیح نے اُن کی توجہ دُنیاوی چیزوں سے ہٹا کر روحانی چیزوں کی طرف مبذول کرائی۔ کیوں کہ وہ جانتا تھا کہ محض جسمانی اور دُنیاوی کامیابی اُس کے مشن کی راہ میں باعث رکاوٹ ہے۔ وہ عظمت و حشمت ، ہنر اور دولت جو دُنیا دیتی اور جس کی خوہش رکھتی ہے اُس سے یسوع نا آشنا تھا۔ دنیاوی چیزیں دے کر دُنیا والے بیشک وفاداریاں خریدتے ہیں۔ یسوع مسیح نے ان میں سے کسی ایک کو بھی استعمال نہ کیا۔ کیونکہ اُسکی پیدائش سے صدیوں پیشتر یہ پیشنگوئی کی گئی تھی۔ ZU 309.2
“وہ نہ چلائے گا اور نہ شور کرے گا اور نہ بازاروں میں اُس کی آواز سُنائی دیگی۔ وہ مسلے ہوئے سرکنڈے کو نہ توڑے گا اور ٹمٹماتی بتی کو نہ بجھائےگا۔ وہ راستی سے عدالت کرے گا۔ وہ ماندہ نہ ہو گا اور ہمت نہ ہارے گا۔ جب تک کہ عدالت کو زمین پر قائم نہ کرلے۔ جزیرے اُس کی شریعت کا انتظار کریں گے۔ “یسعیاہ 2:42-4 فریسی اپنی امتیازی رسوم، خیرات اور منفرد قسم کی عبادت کے ذریعے اپنی شناخت کے خواہاں رہتے تھے۔ وہ ہر وقت اپنے مذہبی عقائد پر بحث و تمیحص کرتے دیکھے جاتے تھے تاکہ لوگ اُنہیں راستباز جانیں۔ مختلف فرقوں میں تکرار کی وجہ سے نوبت ہاتھا پائی پر بھی آجاتی تھی۔ اُن کا شور شرابا کوچوں میں بھی سنا جاسکتا تھا۔ اور یہ سب کچھ تمام لوگوں تک محدود نہ ہوتا تھا۔ بلکہ تکرار میں اُن کے بڑے بڑے شرع کے معلم اور ادیب بھی حصہ لیتے تھے۔ یسوع مسیح کی زندگی اس کے با لکل برعکس تھی۔ اُس نے شہرت حاصل کرنے کے لئے اُن میں سے کوئی بھی چیز نہ اپنائی۔ کیونکہ یسوع مسیح خداوند میں مخفی تھا اور خداوند خدا کی سیرت اپنے بیٹے کے وسیلہ دُنیا پر ظاہر ہوئی۔ راستبازی کا سورج اپنے جلال کے ذریعے دُنیا والوں کو نہ تو جلانا چاہتا تھا، نہ ہی اُن کی آنکھوں کو خیرہ کرنے کا خواہاں تھا۔ کیوں کہ لکھ ہے “اُس کا ظہور صبح کی مانند یقینی ہے” ہو سیع 3:6 ZU 310.1
بڑی شائستگی اور پُر سکون کیفیت میں تڑکا ہوتا ہے جو زمین کی تمام ظلمت کو دُور کر کے دُنیا کو بیدار کر دیتا ہے۔ اسی طرح راستبازی کا سورج جلوہ گر ہوتا ہے” تم پر جو میرے نام کی تعظیم کرتے ہو آفتاب صداقت طالع ہو گا” ملاکی 2:4 ZU 310.2