چرچ کے لئے مشورے
تیسرا باب
خداوند سے ملاقات کی تیاری کر
خدا وند نے مجھ پر ظاہر کیا ہے کہ ہمیں اس کی آمد کو دور نہیں سمجھنا چاہیئے۔ فرشتہ نے کہا”تیار ہو جاؤ۔ تیار ہو جاؤ، ان واقعات کیلئے جو دنیا پر آنے کو ہیں ۔ تمہارے اعمال تمہارے ایمان کے مطابق ہوں “۔ مجھ پر ظاہر کیا گیا کہ ہمارا دل خدا پر قائم رہنا چاہیئے۔ ہم غفلت اور لاپرواہی کر کے خدا وند کی تعظیم نہیں کر سکتے ۔ ہم مایوسی کی حالت میں اس کی تمجید نہیں کر سکتے ۔ اپنی اور دوسرے کی نجات کیلئے جانفشانی سے کوشش کرنی چاہیئے۔ باقی سب باتوں کی نسبت اس بات کو سب سے زیادہ اہمیت دینی چاہیئے ۔ CChU 51.1
میں نے آسمانی جلال دیکھا ۔ میں نے فرشتوں کو یسوع مسیح کی حمد ، تعظیم اور تمجید کیلئے دلربا گیت گاتے سنا۔ تب مجھے ابنِ خدا کی بے بیان محبت کا کسی قدر احساس ہوا ۔ اس نے اپنی حشمت اور عزت کو جو اسے آسمان میں حاصل تھی ، چھوڑ کر ہماری نجات میں اس قدر دلچسپی لی کے اس نے بے عزتی اور ذلت کو جو انسان اس پر لا دسکتا تھا صبر اور تحمل سے برداشت کیا۔ وہ ہماری خاطر گھائل کیا گیا۔ مارا کوٹا اور ستایا گیا ۔ اسے کلوری کی صلیب پر کھینچا گیا اور ہمیں موت سے بچانے کیلئے نہایت جان کنی کی موت برداشت کی تاکہ ہم اس کے خون میں صاف ہو کر اس کے ساتھ زندگی بسر کرنے کیلئے جلائے جائیں اور ان گھروں میں رہ سکیں جنہیں وہ تیا ر کرنے کیلئے گیا ہے تاکہ ہم آسمان کے نور اور جلال سے محفوظ ہوں اور فرشتوں کے گیت سنیں اور ان کے ساتھ ہم آواز ہو کر گائیں ۔ CChU 51.2
میں نے دیکھا کہ ساری آسمانی ہستیاں ہماری نجات میں دلچسپی رکھتی ہیں تو کیا ہمیں غافل رہنا چاہیئے؟ کیا ہم ایسی لاپرواہی کا مظاہرہ کریں جیسے کہ ہماری نجات یا ہلاکت کوئی بڑی بات ہی نہیں ؟ کیا ہم اس قربانی کی تحقیر کریں جو ہمارے لئے دی گئی ہے؟ بعض نے ایسا ہی کیا ہے۔ انہوں نے خدا کے پیش کردہ رحم کی تضحیک کی ہے اور خدا کا غضب ان پر ہے ۔ خدا کے روح کو ہمیشہ رنجیدہ نہیں کیا جا سکتا ۔ اگر اسے تھوڑی دیر اور رنجیدہ کیا جائے گا تو وہ ہم سے جدا ہو جائے گا۔ جو کچھ خدا انسان کو بچانے کیلئے کر سکتا تھا اس کے کرنے کو بعد بھی اگر وہ اپنی روش اور زندگی سے ظاہر کریں کہ و ہ یسوعؔ مسیح کے پیش کردہ رحم کو ٹھکراتے ہیں تو موت اُن کا حصہ ہو گا اور یہ بہت مہنگی پڑے گی۔ یہ موت نہایت خوفناک ہو گی ۔ کیونکہ انہیں مسیح خداوند کی اس جان کنی کو برداشت کرنا ہو گا ۔ جو اس نے صلیب پر سہی تاکہ ان کا فدیہ ادا کرے جسے انھوں نے ٹھکرا دیا ۔ تب وہ محسوس کریں گے انھوں نے ابدی زندگی اور لازوال میراث کو کھو دیا ہے ۔ وہ بیش بہا قربانی جو انسان کو بچانے کیلئے دہ گئی ہے ، اُس سے انسان کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ جب قیمتی جان ایک دفعہ کھو جائے تو وہ ہمیشہ کیلئے برباد ہوجاتی ہے۔ CChU 51.3
میں نے ایک فرشتہ کو دیکھا جس کے ہاتھ میں ایک ترازو تھا۔ جو خدا کے لوگوں اور خصوصاً نوجوانوں کے خیالات اور دلچسپیوں کو تول رہا تھا۔ ترازو کے ایک پلڑے میں اُن کے روحانی اور پاکیزہ خیالات اور دوسرے پلڑے میں دنیاوی اور گناہ آلودہ خیالات تھے ۔ اِس پلڑے میں ہر قسم کے ناولوں کا پڑھنا ، لباس اور نمائش کی آرزو ، غرور اور بطلان وغیرہ ڈالے گئے۔ آہ! یہ کیسا سنجیدہ لمحہ تھا ! خدا کے فرشتے ترازو لئے کھڑے ہیں اور اُن لوگوں کے خیالات کو تول رہے ہیں اور ان لوگوں کے خیالات کو تول رہے ہیں جو خدا کے لوگ ہوتے ، اور دنیا کے اعتبار سے مردہ اور خدا کے اعتبار سے زندہ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جس پلڑے میں دنیاوی خیالات ، بُطلان اور غرور بھرا ہوا تھا، حالانکہ اس پر سے بہت سا بوجھ گر گیا تھاتو بھی وہ جلدی سے جھک گیا۔ جس پلڑے میں روحانی اور پاکیزہ خیالات تھے وہ ایک دم اتنا اوپر اٹھ گیا جتنا کہ دوسرا پلڑا نیچے جھک گیا تھا آہ! یہ کس قدر ہلکا تھا۔ جس طرح میں نے یہ دیکھا اُسی طرح بیان کر سکتی ہوں لیکن میں اُس سنجیدہ اور گہرے اثر کو ہر گز بیان نہیں کر سکتی جو میرے دل پر ہوا۔ جب میں نے یہ دیکھا کہ فرشتہ خدا کے لوگوں کے خیالات اور خواہشات کو تول رہا ہے ۔ فرشتہ نے کہا” کیا ایسے لوگ آسمان میں داخل ہو سکتے ہیں ؟ نہیں نہیں ، ہر گز نہیں ۔ اُن سے کہو کہ وہ بے فائدہ امید رکھتے ہیں اور اگر جلد توبہ کر کے نجات حاصل نہ کریں تو وہ یقیناً برباد ہو جائیں گے“۔ CChU 52.1
دینداری کی وضع کسی شخص کو نہیں بچائے گی۔ سب کیلئے گہرا اور عملی تجربہ ضروری ہے۔ یہی انھیں مصیبت کے وقت بچا سکتا ہے ۔ تب اُن کا کام آزمایا جائے گا کہ وہ کس قسم کا ہے اور اگر وہ سونے چاندی اور بیش قیمت جواہر ہو گا تو خدا انھیں اپنی خیمہ گا ہ میں پناہ دے گا، لیکن اگر ان کا کام لکڑی ، گھاس یا بھوسہ ہو گا تو انھیں یہوّاہ کے غضب سے کوئی چیز نہیں بچا سکتی۔ CChU 52.2
میں نے دیکھا کہ بہت سے لوگ اپنے معیار کا دوسرے لوگوں کے معیار سے مقابلہ کرتے ہیں ۔ اور اپنی زندگیوں کا دوسروں کی زندگیوں کے ساتھ موازنہ ۔ ایسا ہر گز نہیں ہونا چاہیئے۔ مسیح خداوند کے سوا ہمارا اور کوئی نمونہ نہیں ۔ وہی ہمارا حقیقی نمونہ ہے اور ہر شخص کو اس کے نقشے قدم پر چلنے کیلئے پوری پوری جانفشانی کرنی چاہیئے۔ ہم یا تو مسیح خداوند کے ہم خدمت ہیں یا شیطان کے۔ یا تو ہم مسیح خداوند کے ساتھ جمع کرتے ہیں نہیں تو بکھرتے ہیں ۔ یا تو ہم پورے دل سے مسیحی کرتے ہیں یا نہیں ۔ یسوعؔ مسیح نے فرمایا ہے” کاش کہ تو سرد یا گرم ہوتا ۔ پس چونکہ تو نہ تو گرم ہے نہ سرد بلکہ نیم گرم ہے اس لئے میں تجھے اپنے منہ سے نکال پھینکنے کو ہوں “۔ مکاشفہ ۱۵:۳ ۔ ۱۶ CChU 53.1
میں نے دیکھا کہ بعض ابھی تک قربانی اور ایثار کا مطلب بمشکل جانتے ہیں یا یہ کہ سچائی کی خاطر دکھ اُٹھانا کیا ہوتا ہے۔ لیکن کوئی شخص قربانی کئے بغیر آسمان میں داخل نہیں ہو گا۔ قربانی اور ایثار کی روح کو ترقی دینا چاہیئے۔ بعض نے اپنے آپ کو ، اپنے بدن کو خدا کے مذبحہ پر ابھی تک قربان نہیں کیا ۔ وہ جلد بازی اور تند مزاجی کے عادی ہیں ۔ اپنی اشتہا سے مغلوب ہوتے ہیں اور خدا کی خدمت کا خیال کرتے ہوئے اپنی خواہشات کی آسودگی میں مصروف رہتے ہیں ۔ جو لوگ ابدی زندگی کیلئے ہر قربانی کرنے کو تیار ہیں وہ اسے ضرور پائیں گے ۔ ابدی زندگی کی خاطر دکھ اٹھانا ، اپنے آپ کو قربان کرنا اور دل میں سے ہر بری خواہش نکالنا بے فائدہ نہ ہو گا ۔ از حد بھاری اور ابدی جلال سب چیزوں پر حاوی ہے اور ہر دنیاوی خوشی کو بے حقیقت بنا دیتا ہے۔ائی صفحات ۱۲۶۔۱۲۳ CChU 53.2